Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پرویز مشرف کو سزائے موت کا حکم

سابق فوجی صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے جنرل مشرف کو سزائے موت سنا دی ہے۔
اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے منگل کو دو ایک کی اکثریت سے فیصلہ سنایا۔
جسٹس سیٹھ وقار احمد کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سابق آرمی چیف پر آئین سے غداری کا جرم ثابت ہو گیا ہے۔
مزید پڑھیں

 

گزشتہ سماعت میں عدالت نے استغاثہ کو اپنے دلائل 17 دسمبر تک مکمل کرنے کی ہدایت کی تھی۔
2013 میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی حکومت نے سابق آرمی چیف پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔
جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے خلاف نومبر 2007 کو ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ اور ججوں کو نظر بند کرنے پر آرٹیکل 6 کے تحت غداری کی کاروائی شروع کرنے کا اعلان  کیا گیا تھا۔
اس کے بعد حکومت نے چیف جسٹس آف پاکستان سے مشرف کے خلاف مزید کاروائی کے لیے تین ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان پر مشتمل تین رکنی خصوصی عدالت بنانے کی استدعا کی تھی۔
منگل کے روز سماعت کے آغاز پر حکومت نے سنگین غداری کیس میں مزید افراد کو ملزم بنانے کی درخواست دی۔ حکومت کی جانب سے پروسکیوٹر ضیا علی باجوہ نے استدعا کی کہ شوکت عزیز، عبدالحمید ڈوگر اور زاہد حامد کو ملزم بنانا چاہتے ہیں۔
پروسکیوٹر ضیا علی باجوہ نے دلائل میں کہا کہ مشرف کے سہولت کاروں اور ساتھیوں کو بھی ملزم بنانا چاہتے ہیں۔ تمام ملزمان کا ٹرائل ایک ساتھ ہونا ضروری ہے۔ 
پروسیکوٹر نے کہا کہ ستمبر 2014 کی درخواست کے مطابق شوکت عزیز نے مشرف کو ایمرجنسی لگانے کا کہا تھا۔

 2013 میں نواز شریف کی حکومت نے مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی شروع کی تھی۔ فوٹو اے ایف پی

بنچ میں شامل جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مشرف کے شریک ملزمان کی درخواست پر سپریم کورٹ بھی فیصلہ دے چکی ہے۔ جبکہ جسٹس نذر اکبر نے ریمارکس دیے کہ ترمیم شدہ چارج شیٹ دینے کے لیے دو ہفتے کی مہلت دی گئی تھی۔
پروسیکیوٹر نے کہا کہ قانون کے مطابق فرد جرم میں ترمیم فیصلے سے پہلے کسی بھی وقت ہو سکتی ہے۔ جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ آپ نے مزید کسی کو ملزم بنانا ہے تو نیا مقدمہ دائر کر دیں۔ کیا حکومت مشرف ٹرائل تاخیر کا شکار کرنا چاہتی ہے؟ 
جسٹس شاہد کریم نے مزید کہا کہ تین افراد کو ملزم بنایا تو حکومت سابق کابینہ اور کور کمانڈوز کو بھی ملزم بنانے کی درخواست لے آئے گی۔ عدالت کی اجازت کے بغیر فرد جرم میں ترمیم نہیں ہو سکتی۔ جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ چارج شیٹ میں ترمیم کیلئے کوئی باضابطہ درخواست ہی نہیں ملی۔ 
جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ عدالت کی اجازت کے بغیر کوئی نئی درخواست نہیں آسکتی۔ جو درخواست باضابطہ دائر ہی نہیں ہوئی اس پر دلائل نہیں سنیں گے۔ جسٹس نذر اکبر کا کہنا تھا کہ استغاثہ کو یہ بھی علم نہیں کہ عدالت میں درخواست کیسے دائر کی جاتی ہے۔ جس پر پراسکیوٹر نے کہا کہ وہ عدالت سے معذرت خواہ ہیں۔ جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ آپ کا مقصد صرف آج کا دن گزارنا تھا۔ 

ایمرجنسی نافذ کرنے کے وقت پرویز مشرف کے پاس صدر اور آرمی چیف دونوں عہدے تھے۔ فوٹو: اے ایف پی

جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ سیکرٹری داخلہ کابینہ کی منظوری کے بغیر کیسے چارج شیٹ ترمیم کر سکتے ہیں؟ وفاقی حکومت اور کابینہ کی منظوری کہاں ہے؟ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق وفاقی حکومت کا مطلب کابینہ ہے۔ حکومت کارروائی میں تاخیر نہیں چاہتی تو شریک ملزمان کیخلاف نئی درخواست دے سکتی ہے۔ 
وکیل استغاثہ منیر بھٹی نے کہا کہ سابق پراسیکیوٹرز نے عدالت سے حقائق کو چھپایا ۔ جسٹس نذر اکبر نے استفسار کیا کہ سابق پراسیکیوٹرز کیخلاف حکومت نے کیا کارروائی کی؟ جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ حکومت کے پاس پندرہ دن کا وقت تھا درخواستیں دائر کرنے کیلئے۔ وفاقی حکومت سے متعلق سپریم کورٹ مصطفی ایمپیکس کیس میں ہدایات جاری کر چکی۔ سپریم کورٹ کا حکم آنے کے بعد سیکرٹری داخلہ نہیں وفاقی کابینہ فیصلے کر سکتی ہے۔

’اس فیصلے سے مستقبل میں آئین توڑنے کی روایت ختم ہو گی‘

پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کی جانب سے سزائے موت سنائے جانے کے بعد مختلف سیاسی پارٹیوں نے مختلف قسم کے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ 
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر صرف ایک جملہ لکھا ’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘ اور اس کے ساتھ بے نظیر بھٹو کی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے تصویر بھی شیئر کی۔ 

پاکستان مسلم لیگ ن کے جنرل سیکریٹری احسن اقبال نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:’اس فیصلے سے مستقبل میں آئین توڑنے کی روایت ختم ہو گی۔ یہ وہ فیصلہ ہے جو آج سے پچاس سال قبل کیا جاتا تو مارشل لا کی لعنت اور نحوست مسلط نہ ہوتی، اور کبھی مشرقی پاکستان پاکستان سے جدا نہ ہوتا۔‘ 
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنا ردعمل دیتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا:’’وقت کے تقاضے ہوتے ہیں ملک کو جوڑنے کی ضرورت ہے ایسے فیصلے جس سے فاصلے بڑھیں ، تقسیم بڑھے قوم اور ادارے تقسیم ہوں ان کا فائدہ ؟ مسلسل کہ رہا ہوں گفتگو کی ضرورت ہے نیو ڈیل  کی طرف جائیں ایک دوسرے کو نیچا دیکھانا کسی کے مفاد میں نہیں، ملک پر رحم کریں۔‘ 

وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ حکومت قانونی ٹیم کے ساتھ اس فیصلے کو دیکھے گی، تفصیلی جائزہ لینے کے بعد حکومتی بیانیہ سامنے لایا جائے گا۔ وزیر اعظم ملک سے باہر ہیں، وہ کل واپس آئیں اس کے بعد قانونی پہلوؤں کے مطابق اس کو دیکھیں گے۔‘ 
اسی طرح سابق صدر پرویز مشرف کی پارٹی آل پاکستان مسلم لیگ کی جانب سے جاری ہونے والی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ پارٹی اس فیصلے کے خلاف اپیل کرے گی، پارٹی قانونی ماہرین سے رابطے میں ہے، مستقل کے لیے لائحہ عمل طے کر لیا جائے گا۔ 
مزید کہا گیا ہے کہ سابق صدر کی جانب سے بار بار استدعا کے باوجود عدالت نے انہیں دفاع کا حق نہیں دیا اور ان کی غیر موجودگی میں فیصلہ سنا دیا گیا حالانکہ پرویز مشرف درخواست کر چکے تھے کہ غیر موجودگی میں فیصلہ نہ سنایا جائے۔ 

شیئر: