وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے سپریم کورٹ کے آرمی چیف کی تعیناتی اور مدت ملازمت میں توسیع پر قانون سازی کے حکم سے متعلق کہا ہے کہ ’مجھے سمجھ نہیں آتی کہ سپریم کورٹ نے اس پر کیوں فیصلہ دیا کیونکہ اس میں عدلیہ کا نہیں وزیراعظم کا ایگزیکٹو اختیارتھا جو ماضی میں بھی چلتا آیا تھا۔‘
اردو نیوزکے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ ’اس وقت خطے میں سکیورٹی اور دیگر حالات کے بارے وزیراعظم کے پاس معلومات باقی لوگوں سے زیادہ ہیں۔ 1973 کے آئین نے وزیراعظم کو یہ خصوصی اختیار دیا ہے کہ وہ آرمی چیف کا انتخاب کرکے ایڈوائس صدر کو بھیجیں۔‘
ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ ’توسیع پہلی دفعہ تو نہیں ہوئی، بہرحال یہ پہلی بار ہوا کہ پارلیمان نے متفقہ طور پر توسیع کی منظوری دی۔ قانون میں جو بھی ابہام تھا اس کے حوالے سے قانون سازی ہو گئی ہے۔ آئندہ کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ یہ ایک لحاظ سے اچھا بھی ہے۔‘
مزید پڑھیں
-
آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا ترمیمی بلNode ID: 451126
-
ایکسٹینشن لو، ایکسٹینشن دوNode ID: 451621
-
’اب جبری گمشدگی پر ضابطہ فوجداری کا مقدمہ درج ہو گا‘Node ID: 453531
اپوزیشن نے آرمی ایکٹ کی غیر مشروط حمایت کیوں کی؟ اس پر انھوں نے کہا کہ ’یہ تو اپوزیشن سے پوچھنا چاہیے۔‘
ٹی وی پروگرام میں میز پر بوٹ رکھنے کے اقدام کے حوالے سے ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ ’فیصل واوڈا کے اقدام کی منظوری ہماری پارٹی نے نہیں دی۔ پہلے ہی ایک بیانیہ دے دیا گیا تھا کہ ہم اپوزیشن کے اس اقدام کو سراہیں گے کہ انھوں نے ملک کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کیا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’وزیر اعظم نے خود یہ ہدایات دی تھیں کہ آرمی ایکٹ کے معاملے پر اپوزیشن پر کسی قسم کی کوئی تنقید نہ کی جائے بلکہ قومی مفاد میں حکومت کی حمایت کرنے پر سراہا جائے۔ فیصل واوڈا نے اسے ذاتی فعل بھی قرار دیا اور وزیراعظم نے بھی ان کی اس حرکت پر اعتراض کیا ہے۔‘
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’فیصل واوڈا پارٹی کے پرانے کارکن ہیں اور انھوں نے بہت کام کیا ہے، تاہم ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کا اختیار وزیراعظم کے پاس ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان کا مستقبل کیا ہو گا۔‘
شیریں مزاری نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ وفاقی کابینہ کے اجلاسوں کی معلومات اجلاس ختم ہونے سے بھی پہلے باہر نکل جاتی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’کابینہ اجلاس کے دوران ہی خبریں لیک ہو جانا ایسا راز ہے جس کا پتا چلانے کی ضرورت ہے کہ یہ معجزہ کیسے ہو جاتا ہے جب کہ کابینہ ارکان تو اپنے فون بھی ساتھ نہیں لے جا سکتے۔‘
کابینہ اجلاسوں میں وزرا مابین تلخ کلامی کے واقعات کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ ’ہم ایک جمہوری جماعت ہیں۔ اپنے اجلاسوں میں طویل بحث و مباحثہ کرتے ہیں۔ یہ نئی چیز نہیں ہے۔ اقتدار میں نہیں تھے تو بھی کور کمیٹی اجلاسوں میں طویل مشاورت ہوتی تھی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’وزیر اعظم اس روایت پر عمل پیرا ہیں کہ ہر رکن کو اپنی رائے کے اظہار کا حق دینا چاہیے۔ نواز شریف تو کابینہ کا اجلاس ہی نہیں بلاتے تھے۔ کیا کوئی نواز شریف، بھٹوز یا زرداری پر تنقید کر سکتا ہے؟‘
وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ میں غیر منتخب مشیروں اور معاونین کی تعداد اور ان پر ہونے والی تنقید پر ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ ’یہ وزیر اعظم کا صوابدیدی اختیار ہے کہ وہ کس کو کون سی ذمہ داری دینا چاہتے ہیں۔‘
اگر وہ سمجھتے ہیں کہ غیر منتخب معاونین یا مشیروں کی متعلقہ شعبے میں مہارت زیادہ ہے اور وہ بہتر کام کر سکتے ہیں تو پھر انہیں اپنی ٹیم بنانے کا حق ہے۔ اس حوالے سے تنقید کی کوئی حیثیت نہیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ ’ڈیڑھ سال گزر جانے کے بعد تحریک انصاف کے وزرا کو اب اپنی کارکردگی پر بات کرنی چاہیے۔ اس کے باوجود کچھ شعبے ایسے ہیں جہاں صورت حال بہت خراب ہے۔ خزانہ توانائی، مہنگائی اور عوامی مسائل پر بات کرتے ہوئے لوگوں کو بتانا پڑتا ہے کہ ورثے میں جو کچھ ملا ہے اس کو ٹھیک کرتے ہوئے وقت لگے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جب لوگ جلد تبدیلی اور ترقی نہ ہونے کی وجہ پوچھتے ہیں تو ان کو ماضی کی حکومتوں کی کارکردگی بتانا پڑ جاتی ہے۔‘
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں