Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ڈی پورٹ پاکستانیوں کو ہراساں نہیں کیا جائے گا‘

امیگریشن ایکٹ 1989 کے مطابق غیر قانونی طور پر ملک سے باہر جانا جرم ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
ساجد علی پاکستان کے شہر گوجرانوالہ کے رہائشی ہیں اور متحدہ عرب امارات میں دو سال محنت مزدوری کرتے رہے ہیں، تاہم ویزہ میں توسیع نہ ملنے کی وجہ سے انہوں نے متحدہ عرب امارات میں مقررہ مدت سے زیادہ قیام کیا جس کی وجہ سے حکام نے ان کو پاکستان واپس ڈی پورٹ کر دیا۔
لاہور ایئر پورٹ پر پہنچنے کے بعد انہیں امیگریشن حکام نے ضروری کارروائی کے بعد اپنے گھر گوجرانوالہ جانے کی اجازت دے دی۔
ساجد علی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا ’میں کسی غلط وجہ سے وہاں نہیں رکا تھا، مجھے پوری امید تھی کہ میرا ویزہ لگ جائے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا اور بھاگ دوڑ میں ہی مزید وقت گزرتا گیا۔ میرے پاس زیادہ پیسے بھی نہیں تھے اور بالآخر مجھے پاکستان ڈی پورٹ کر دیا گیا۔ واپس آتے ہوئے ڈر تھا کہ ایئر پورٹ پر مجھے گرفتار کر لیا جائے گا۔ کیونکہ خبریں یہی دیکھتے رہتے ہیں کہ ڈی پورٹ ہونے والوں کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔‘
ساجد علی خوش قسمت ہیں کہ انہیں ایئر پورٹ پر گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ پاکستانی حکام نے نے ضروری پوچھ گچھ کے بعد انہیں جانے کی اجازت دے دی۔ ساجد علی بتاتے ہیں ’جیسے ہی میں امیگریشن کے کاؤنٹر پر آیا تو میرا پاسپورٹ دیکھنے کے بعد مجھے سائیڈ پر بٹھا دیا گیا۔ تھوڑی دیر بعد کچھ افسران آئے اور کچھ سوالات کیے میں نے ان کو سب کچھ سچ بتا دیا، اس کے بعد انہوں نے میرا تحریری بیان ریکارڈ کیا اور مجھے جانے کی اجازت دے دی، مجھے اس بات پر یقین نہیں آیا۔ مجھے گرفتاری کا خوف تھا۔ اس وجہ سے میں نے گھر والوں کو بھی اطلاع نہیں دی تھی کیونکہ ایئر پورٹ پر کچھ بھی ہو سکتا تھا۔‘

درست کاغذات کے ساتھ بیرون ملک جانے والوں کے ساتھ ڈی پورٹ ہونے پر نرمی کی جائے گی۔ فوٹو: اے ایف پی

یہ کہانی ساجد علی کی طرح ہزاروں ایسے افراد کی ہے جو بیرون ملک مزدوری کے لیے جاتے ہیں تو کئی وجوہات کی بنا پر انہیں پاکستان ڈی پورٹ ہونا پڑتا ہے۔
پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے بیرون ملک سے پاکستان تکنیکی طور پر ڈی پورٹ ہونے والے شہریوں کے خلاف قانونی کارروائی میں نرمی کی پالیسی نافذ کی ہے۔
ایف آئی اے کے لاہور کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رضوان کے مطابق ’ایسے افراد جو کسی مصیبت کی وجہ سے پاکستان واپس ڈی پورٹ کیے جاتے ہیں، کو ضروری پوچھ گچھ کے بعد اب گھر جانے دیا جاتا ہے، اس کی وجہ انسانی ہمدردی ہے۔‘
’اس سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ ڈی پورٹ ہونے والے افراد کو سپیشل مجسٹریٹ کے روبرو پیش کر کے ان کا بیان ریکارڈ کیا جاتا تھا، پھر انہیں جانے کی اجازت دی جاتی تھی۔ قانون میں ایسے افراد جو درست کاغذات کے ساتھ بیرون ملک جاتے ہیں اور ڈی پورٹ کر دیے جاتے ہیں، ان کے خلاف سختی نہیں ہے اب واپسی کے اس طریقہ کار کو مزید آسان کر دیا گیا ہے۔ اور یہ ایک انتظامی فیصلہ ہے۔‘

قبل ازیں ڈی پورٹ ہونے والوں کا سپیشل مجسٹریٹ کے سامنے بیان ریکارڈ کیا جاتا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

یہ رعایت کن پر لاگو ہوگی؟

ایف آئی اے لاہور کی لیگل ٹیم کے سربراہ منعم بشیر چوہدری نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کئی طرح کے افراد ڈی پورٹ ہوتے ہیں، ان کو آسانی سے تین درجوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
’پہلی قسم ایسے افراد کی ہے جو غیر قانونی طور پر ملک سے باہر جاتے ہیں۔ غیر قانونی نقل و حمل پر قانون واضح ہے اور امیگریشن ایکٹ 1989 کے مطابق کوئی بھی شخص غیر قانونی طور پر ملک سے باہر جائے یا ملک کے اندر آئے یہ قابل تعزیر جرم ہے۔ غیر قانونی طور پر ملک کی سرحدوں سے نکلنے والے اگر ڈی پورٹ کر دیے جائیں تو ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جاتا ہے اور اس جرم کی سزا دی جاتی ہے۔‘
لیگل ڈائریکٹر نے بتایا کہ دوسری قسم ایسے افراد کی ہے جو وزٹ ویزہ پر باہر جاتے ہیں لیکن وہ دوسرے ملکوں میں ویزہ کی مدت ختم ہونے کے باوجود قیام کرتے ہیں۔ منعم بشیر کے مطابق اس درجے میں آنے والے افراد جاتے تو ایجنٹس کے ذریعے ہیں، تاہم چونکہ وہ قانونی دستاویزات کے ذریعے سفر کرتے ہیں تو ایسے افراد کے بارے میں قانون نرم ہے۔
’ایسے میں ایف آئی اے کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے ڈی پورٹ کیے جانے پر ایجنٹس کا پتا چلایا جائے جو انہیں اس طرح کی ترغیب دیتے ہیں، عام طور پر ایسے افراد کو گواہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ تیسری قسم ایسے افراد کی ہے جو کسی مجبوری کی وجہ سے ڈی پورٹ ہوتے ہیں جیسا کہ قانونی ویزہ میں توسیع نہ ہونا یہ کوئی اور تکنیکی وجہ۔
منعم چوہدری کے مطابق ایسے افراد مکمل رعایت کے مستحق ہیں، اور ان کی دستاویزات کے ثبوت دیکھ کر انہیں جانے دیا جاتا ہے۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: