Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزارتوں کی ریاض منتقلی سے شہر بدل گیا

سب سے پہلے وزارت داخلہ کا آفس ریاض منتقل ہوا- فوٹو اخبار 24
سعودی وزارتوں کے دفاتر کی دارالحکومت ریاض منتقلی سے شہر کی شکل و صورت بدل گئی ہے اور دارلحکومت کا حدود اربعہ بڑھ گیا ہے۔
اطراف کے شہروں، قصبوں اور قریوں کے باشندے تعلیم، روزگار اور کاروبار کے لیے ریاض نقل مکانی کررہے ہیں۔ 
اخبار 24 کے مطابق 1957 میں بعض وزارتیں جدہ سے ریاض شہر منتقل ہوئیں۔ ان میں وزارت داخلہ کا ہیڈکوارٹر سرفہرست ہے۔ وزارت داخلہ نے جدہ سے ریاض منتقلی کے دوران اشتہار دے کر توجہ دلائی تھی کہ اس نے جدہ میں اپنےتمام دفاتر بند کردیے ہیں اور 28 ستمبر1957 سے ریاض میں دفاتر کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ریاض میں ’مدینہ الموظفین‘ (ملازمین کا شہر) بنانے کا منصوبہ تیار ہوا- فوٹو اخبار 24

سعودی وزارت خارجہ 1984 کے اوائل میں جدہ سے ریاض منتقل ہوئی۔ اس کے ساتھ تمام سفارتخانے بھی جدہ سے ریاض منتقل ہوگئے۔ اس طرح ریاض مملکت کا سیاسی اور انتظامی دارالحکومت بن گیا۔ یکے بعد دیگرے تمام وزارتیں ریاض چلی گئیں۔  
جدہ سے وزارتوں کی ریاض منتقلی ہوئی تو بیشتر اہلکار بھی ریاض چلے آئے۔ ان کے لیے سپیشل سٹی قائم  ہوئی جس سے وزارتوں کے اہلکاروں کی رہائش کا مسئلہ حل کیا گیا۔
فہد الفیصل نے اپنی یادداشتوں میں اس یادگار واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب ریاض میں ’مدینہ الموظفین‘ (ملازمین کا شہر) قائم کرنے کا منصوبہ بنایا تو شاہ سعود سے اس کا ذکر کیا- انہوں نے خیال کی حمایت کی۔ اس کے بعد ہی مدینہ الموظفین کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا۔ کئی برس تک نیا شہر صحافت کا موضوع بنا رہا۔ یہ اس وقت سعودی عرب کا سب سے بڑا منصوبہ تھا- سعودی عوام اس کی منصوبہ بندی اور منفرد طرز تعمیر سے بے حد متاثر تھے- یہ اپنی نوعیت کا پہلا شہر تھا- اس سے قبل سعودی شہری اس طرز کے شہروں سے نامانوس تھے۔ 

مدینہ الموظفین کی تعمیر کا ٹھیکہ تین بڑی کمپنیوں کو دیا گیا- فوٹو اخبار 24

’ریاض شاہ سعود کے عہد میں‘ نامی کتاب میں تحریر ہے کہ اس وقت ریاض کا رقبہ 6 مربع کلو میٹر کے دائرے میں محدود تھا- ریاض میونسپلٹی نے مدینہ الموظفین کی تعمیر کا ٹھیکہ تین بڑی کمپنیوں کو دیا تھا۔ طے کیا گیا تھا کہ اخراجات فی الفور ادا نہیں کیے جائیں گے۔ اسی کے ساتھ  یہ بھی طے ہوا تھا کہ کم آمدنی والے اہلکار اپنی تنخواہ کا ایک حصہ بچائیں گے تب ہی انہیں رہائش فراہم ہوگی- رہائش کی لاگت ماہانہ قسطوں میں بیس برس تک وصول کی جائے گی- 
سعودی مورخ حمد الجاسر  نے تحریر کیا ہے کہ ریاض میونسپلٹی 1957میں قائم کی گئی۔ سربراہ سعودی خاندان کے فیصلہ کن شخص شہزادہ فہد الفیصل کو بنایا گیا۔ ریاض اس وقت عظیم الشان تعمیراتی سرگرمیوں کا محور بن گیا- کشادہ سڑکوں کی منصوبہ بندی کی گئی- بڑے بڑے چوراہے قائم کیے گئے- شہر کو عوامی پارکوں سے آراستہ کیا گیا- سڑکوں اور چوراہوں پر شجر کاری کی گئی- میٹھا پانی گھر گھر پہنچایا گیا- 

ریاض میونسپلٹی کے فرائض میں اضافہ ہوا- فوٹو اخبار 24

یہ سارا کام جدہ سے ریاض وزارتوں کی منتقلی سے قبل انجام دیا گیا۔ وزارتوں کی منتقلی پر شہر ہر جہت میں پھیل گیا- بلدیاتی کونسلوں کے کام بڑھ گئے- روزگار، تعلیم اور کاروبار کے مواقع کی تلاش میں نقل مکانی کرنے والوں کا محبوب شہر بن گیا۔ میونسپلٹی کے فرائض میں اضافہ ہوا- بجٹ غیرمعمولی طور پر بڑھ گیا- ملازمین اور ورکرز کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی- 
اب بھی کئی سرکاری اداروں اور وزارتوں کے دفاتر کنگ عبدالعزیز روڈ (مطار قدیم) پر واقع ہیں۔ یہ علاقہ عوامی زبان میں ’شارع الوزارات ‘ کہلاتا ہے۔ اس کی شروعات ریاض ایئربیس سے ہوتی ہے اور یہ  سٹریٹ وزارت اسلامی امور کی عمارت پر جاکر ختم ہوجاتی ہے۔ شارع الوزارات پر ہمیشہ ٹریفک بہت زیادہ ہوتا ہے مصروف اوقات میں یہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں ملتی۔ 

 

خود کو اپ ڈیٹ رکھیں، واٹس ایپ گروپ جوائن کریں

شیئر: