Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برطانیہ میں پاکستانی طلبا: ’فیس ادا مگر سہولیات نہ آن کیمپس پڑھائی‘

بیرون ملک بالخصوص برطانوی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنا پاکستانی طلبا کا خواب ہوتا ہے۔ اس خواب کو پورا کرنے کے لیے وسائل کی دستیابی ہر ایک کے لیے ممکن نہیں اس لیے کچھ طلبا سکالرشپس کا سہارا لیتے ہیں۔
بمشکل اخراجات کی ادائیگی اور کوشش کے بعد برطانوی یونیورسٹیوں میں پہنچنے کے باوجود وہاں پڑھنے کا موقع میسر نہ آنے پر طلبا مایوسی کا شکار ہیں۔ کورونا پابندیوں بالخصوص حالیہ لاک ڈاؤن کے باعث پاکستانی طلبا کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
طلبا کا کہنا ہے کہ 'برطانوی یونیورسٹیوں نے واجبات تو تمام تر سہولیات کے وصول کیے لیکن رہائش اور آن لائن کلاسز کے علاوہ کچھ بھی استعمال میں نہیں آ رہا جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔ برطانوی حکومت اور یونیورسٹیوں کو چاہیے کہ موجودہ صورت حال میں طلبا کو پریشانی سے بچانے کے لیے فیسوں میں کمی کرکے ان کو ریلیف فراہم کریں۔'
یونیورسٹی آف ایس ایکس (Essex) میں ایم ایس سی کمپیوٹر نیٹ ورکس اینڈ سیکیورٹی کے اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے طالب علم رشید اظہر نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ 'میں اکتوبر 2020 میں برطانیہ پہنچا۔ یہاں آنے کا مقصد بہتر تعلیمی سہولیات سے فائدہ اٹھانا اور تعلیم حاصل کرنا تھا۔ یہاں آنے سے قبل بھی کورونا کی وبا موجود تھی اس کے باجود ای میلز کے ذریعے یقین دہانی کرائی گئی کہ آن لائن کے ساتھ ساتھ فیس ٹو فیس کلاسز بھی ہوں گی۔ میں جب سے یہاں آیا ہوں تو ابھی تک ایک بھی فیس ٹو فیس کلاس نہیں لی جا سکی۔'
ان کا کہنا ہے کہ 'برطانوی یونیورسٹیز کی کمپیوٹر نیٹ ورکنگ لیبز بہت شاندار ہیں لیکن ابھی تک دیکھ سکے نہ استعمال کر سکے۔ مجھے تو ابھی تک یہ بھی نہیں معلوم کہ میرا ڈیپارٹمنٹ کہاں پر ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یونیورسٹی نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔'
ان کے مطابق 'اگر فیس کم ہو جاتی تو بھی یہ صورت حال قابل قبول ہے۔ انہوں نے ایک ایک پیسہ ہم سے زبردستی وصول کیا ہے۔ میرے 20 پاونڈ کم تھے تو مجھے مجبور کیا گیا کہ میں وہ پہلے ادا کروں۔ اب جب سہولیات کا استعمال نہیں ہو رہا تو فیسوں میں خاطر خواہ کمی کا اعلان کرنا چاہیے۔'
مری سے تعلق رکھنے والی پاکستانی طالبہ ثنا عباسی نے اردو نیوز کو بتایا کہ 'لاک ڈاؤن کی وجہ سے  یہاں پر سب کچھ بند ہے جس کی وجہ سے کافی مشکلات ہیں۔ جب سے ہم آئے ہیں تب سے صرف آن لائن کلاسز ہی لی جا رہی ہیں۔ جو سہولیات ہمارے لیے مختص کی گئی تھیں وہ سب بند پڑی ہیں۔ ان کا کوئی استعمال ممکن نہیں ہے۔ ہم یونیورسٹی کیمپس نہیں جا رہے۔ ہم کھیل اور تفریحی سرگرمیاں نہیں کر سکتے۔'

'اس لیے اس بات کا اندازہ لگا لیں کہ آپ کو سب کچھ اپنی جیب سے ہی برداشت کرنا پڑے گا۔' فوٹو: ان سپلیش

انھوں نے کہا کہ 'سہولیات فراہم نہیں کی جا رہیں لیکن برطانوی حکومت کی جانب سے فیسوں وغیرہ میں کمی یا رعایت بھی نہیں دی جا رہی۔ اس لیے جو بھی پاکستانی طلبا برطانیہ انے کے خواہش مند ہیں وہ یہ ذہن میں رکھ کر آئیں کہ حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے پارٹ ٹائم ملازمتیں بھی نہیں ہیں۔ اس لیے اس بات کا اندازہ لگا لیں کہ آپ کو سب کچھ اپنی جیب سے ہی برداشت کرنا پڑے گا۔'
سکردو سے تعلق رکھنے والے ایک اور طالب علم وزیر افراسیاب نے اردو نیوز کو بتایا کہ 'لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہاں بہت مہنگائی ہو گئی ہے۔ باربر شاپس اور لانڈری اور خوراک میں ریٹس اوپر چلے گئے ہیں۔ پریشانی اس بات کی ہے کہ یونیورسٹی کی جانب سے چارجز تو پورے لیے جا رہے ہیں لیکن سہولیات مکمل فراہم نہیں جا رہیں اور یورپ کے دیگر ممالک کی طرح کوئی رعایت بھی نہیں دی جا رہی۔'

'جب سے ہم آئے ہیں تب سے صرف آن لائن کلاسز ہی لی جا رہی ہیں۔' فوٹو: ان سپلیش

ان کا کہنا ہے کہ 'لیب استعمال نہیں کر رہے۔ آن کیمپس کلاسز بھی نہیں ہیں۔ اس کے باوجود فیسوں میں بھی کمی نہیں کی گئی۔ اپنی جیب سے خرچ کرکے برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے والوں کی صورت حال دن بدن بدتر ہوتی جا رہی ہے۔'
اعداد و شمار کے مطابق اس وقت بھی 10 ہزار سے زائد پاکستانی طلبا برطانیہ میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ سال 2019 میں پانچ ہزار سے زائد پاکستانی طلبا کو برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے ویزے جاری کیے گئے تھے۔

شیئر: