امریکہ میں بدھ کو اس مرض کا پہلا متاثرہ شخص مشرقی ریاست میساچوسٹس میں سامنے آیا جو حال ہی میں کینیڈا سے واپس آیا تھا۔
اس بیماری سے زیادہ تر افراد کو صحت یاب ہونے میں ہفتوں لگ جاتے ہیں تاہم یہ بہت کم جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ وسطی اور مغربی افریقہ کے ملکوں میں ’منکی پاکس‘ کی وبا حالیہ برسوں میں پھیلی تاہم یورپ اور شمالی امریکہ میں یہ بہت کم ہی سامنے آئی۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ وہ اس بیماری کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے برطانیہ اور یورپ کے صحت کے حکام کے ساتھ رابطے میں ہے۔
ڈبلیو ایچ او کی متعدی امراض کی ماہر ڈاکٹر ماریہ وان کرخوو نے کہا کہ ’ہمیں اس بیماری سے متاثرہ ملکوں میں اس کے پھیلاؤ اور ان ملکوں سے دوسرے علاقوں تک اس کے پہنچنے کے خطرے کو بہتر انداز سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔‘
برطانیہ کے محکمہ صحت کے مطابق ملک میں پہلا مریض ایک ایسا شخص تھا جس نے نائجیریا کا سفر کیا تھا تاہم دیگر کیسز ممکنہ طور پر کمیونٹی میں ایک سے دوسرے کو متاثر کرنے کے ہیں۔
برطانوی محکمہ صحت کے چیف میڈیکل ایڈوائزر ڈاکٹر سوسان ہاپکنز نے بتایا کہ ’نئے کیسز اور یورپ کے دیگر ملکوں سے سامنے آںے والی رپورٹس کو ملا کر ہم ابتدائی طور پر اس خدشے کی تصدیق کرتے ہیں کہ منکی پاکس ہماری کمیونٹیز میں پھیل رہا ہے۔‘
ڈبلیو ایچ او کے مطابق وہ کئی ایسے کیسز کی تحقیق کر رہے ہیں جن میں پتا چلا ہے کہ یہ بیماری ہم جنس پرست افراد میں ایک سے دوسرے کو لگی۔
عالمی ادارے کے مطابق یہ بیماری جسمانی رابطے اور بستر یا کپڑوں سے بھی پھیل سکتی ہے اگر ان پر مائع یا خون کے قطرے ہوں۔