Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’گوری تحقیق‘‘

جن اداروں میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ خدمات انجام دیتی ہیں، ان کی کارکردگی خالص’’مردانہ‘‘ اداروں کے مقابلے میں سہ چند ہوتی ہے
- - - - - - -
شہزاد اعظم
- - - - - - - -
ہماری نسل نے اپنے سکڑ سکڑ دادا کے زمانے سے سائنسی تحقیق کا سلسلہ موقوف کر رکھا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہمیں اب سائنس وغیرہ سے کوئی دلچسپی نہیں رہی بلکہ سبب یہ ہے کہ تحقیق کی ذمہ داری چٹی چمڑی والوں نے مول لے لی ہے۔ اب ہوئی ہوائی اور کی کرائی تحقیق ہمیں دستیاب ہوجاتی ہے اس لئے ہم نے خواہ مخواہ سرکھپانا چھوڑ دیا ہے۔اب ہم صرف اتنا کرتے ہیں کہ ٹھنڈے ممالک سے جو گرما گرم ’’گوری تحقیق‘‘ موصول ہوتی ہے ، ہم آنکھ بند کر کے اس پر یقین کر لیتے ہیں اور ضروری ہو تو فوری عملدرآمد بھی یقینی بنانے میں جُت جاتے ہیں۔ 3یا زیادہ سے زیادہ 4عشرے قبل تک ہمارے ہاں کارپوریشنوں میں ہی مخلوط ملازمین پائے جاتے تھے ۔ وہ’’دل لگا کر‘‘ کام کرتے اورکسی روز چھٹی نہیں کرتے تھے بلکہ ہر روزوہ بے چینی سے اپنی ڈیوٹی شروع ہونے کاانتظارکرتے تھے۔ ہر روز صبح سویرے سڑکوں پرجمعدار اور جمعدارنیاں جھاڑو دیتے اور چہُل کرتے نظر آتے تھے۔باقی اداروں مثلاً درسگاہوں اوراسپتالوںمیں ’’مذکر،مونث‘‘ کے مابین فاصلے برقرار رکھنے کے لئے حد بندی کی جاتی تھی۔اس دوران ایک روز اچانک ہی’’گوری تحقیق‘‘موصول ہوئی جس میں کہا گیا تھا کہ جن اداروں میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ خدمات انجام دیتی ہیں، ان کی کارکردگی خالص’’مردانہ‘‘ اداروں کے مقابلے میں سہ چند ہوتی ہے۔اس تحقیق نے ہمارے صاحبانِ حل و عقد کواپنے سحر میں جکڑ لیا اور انہوں نے تمام ’’نَر‘‘ اداروں میں ’’مادہ کارکنان‘‘ متعارف کرانے کا عزمِ صمیم کر لیا۔ اس کی ابتدا پولیس سے کی گئی ۔پولیس ایسا محکمہ تھا جو اپنی پیدائش کے روزِ اول سے ہی ’’نسوانیت ‘‘ سے محروم چلا آ رہا تھا۔ اسی لئے ان کی گفتگو بھی ایسی’’مردانہ‘‘ ہوتی تھی کہ نسوانی کان اسے سننے تاب نہیں لا سکتے تھے۔
اس محکمے میں تجرباتی طور پر خواتین کو افسریاں سونپی گئیں۔6ماہ کے بعد اس کے نتائج یوں سامنے آنا شروع ہوئے کہ تھانیداروں کی توندیں غائب ہونا شروع ہوگئیں۔ ان کی گفتگومیں نرمی کا عنصر جھلکنے لگا، چہروں پر وہ جھریاں بھی نمودار ہونا شروع ہوگئیں جو ہنستے وقت دکھائی دیتی ہیں ۔ انہوں نے گھر کی چہار دیواری میں’’ مقید‘‘جوروکو بھی اپنی ’’خادمہ‘‘ کی بجائے ’’صنفِ نازک‘‘سمجھنا شروع کردیا۔ آفس جاتے وقت خوشبولگا کر گھر سے نکلنا اُن کے لازمی معمولات میں شامل ہو گیا۔ان مثبت نتائج کی روشنی میں ہمارے ہاں ہر محکمے میں خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ مامور کرنے کا چلن شروع ہوگیا۔اس کا ایک نتیجہ یہ بھی برآمد ہوا کہ ہمارے محلوں میں اب کوئی گھر ایسے مل جاتے ہیں جس میں رہنے والے میاں بیوی، ایک ہی ادارے میں ملازم ہیں۔ پہلے ایسا اتفاق صرف جاروب کشوں تک محدود ہوا کرتا تھا۔انہی نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارے معزز ایوانوں میں بھی ’’سیاستدانیوں‘‘ کی تعداد بڑھا دی گئی۔پھر ہاکی، کرکٹ، ٹینس اورسیکیورٹی میں بھی خواتین ،مردوں کے ہمقدم ہوگئیں۔اب تو شاید ہی کوئی ایسا شعبۂ زندگی باقی بچا ہو گا جسے خالصتاً ’’مردانہ‘‘ قرار دیا جا سکے ۔ رواں ہفتے ایک اورحیران کن سائنسی تحقیق وارد ہوئی جس نے ایسے ایسے عقدے حل کر ڈالے ہیںجو بڑے بڑے سیاستدانوں، ماہرین تعلیم اور یہاں تک کہ ڈاکٹروں کے لئے بھی’’ لاینحل‘‘مسئلہ بنے ہوئے تھے۔’’چِٹوں‘‘ نے اس تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ’’ فشار الدم قوی‘‘ یعنی ’’ہائی بلڈ پریشر‘‘ کاعارضہ تعلیم یافتہ لوگوں کو لاحق نہیں ہوتا۔
یہ امر بھی مسلمہ ہے کہ ہائی بلڈ پریشر اور غصہ ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔اسی لئے جب کسی کو غصہ آتا ہے تو اس کا بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے اور جن کا بلڈ پریشر ہائی ہوتا ہے، انہیں غصہ زیادہ آتا ہے۔یہ تازہ تحقیق ہماری پرکھ پر بھی پوری اترتی ہے۔ وہ اس طرح کہ جاہل ، گنوار، لٹھ مار، اُجڈاور جعلی سند یافتہ لوگوں میں سوچنے، سمجھنے اور عقل سے کام لینے کی صلاحیت آٹے میں نمک کے برابر ہی ہوتی ہے اس لئے وہ بات بات پر غصے میں آپے سے باہر ہو کر چیخم دھاڑ کرنے لگتے ہیںچنانچہ انہیں ’’ہائی بلڈ پریشر‘‘ لاحق ہو جاتا ہے۔ اس کے برخلاف پڑھے لکھے، عقل سے کام لینے والے،اصل سند یافتہ،سنجیدہ اور باوقار قسم کے لوگ بات بے بات لال پیلے نہیں ہوتے بلکہ دھیمے لہجے میں گفتگو کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔اسی لئے انہیں ہائی بلڈ پریشر لاحق نہیں ہو پاتا۔اس انکشاف کے بعد شنید ہے کہ ہمارے ہاں بعض سیاستدانوں کی جعلی اسناد کا سراغ لگانے کے لئے ’’غیر جانبدار‘‘ ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے جو غصیلے سیاستدانوں کے بلڈ پریشر چیک کریں گے ۔ دوسری جانب سیاستدانوں نے بیسن کی روٹی اورلہسن کی چٹنی کا استعمال شروع کر دیا ہے تاکہ بلڈ پریشر کم رہے، غصہ کم آئے اوروہ اسمبلی میں ڈیسک پیٹنے، شیم شیم کہنے، بدزبانی اور دروغ گوئی کرنے سے قبل 100مرتبہ سوچیں کہ ان کی زبان یا عمل سے کسی کی دلآزاری نہ ہونے پائے ورنہ سامنے والے کا’’سچائی پر مبنی تلخ جواب‘‘ سن کر ان کا بلڈ پریشر ہائی ہوجائے گااور ان کی جہالت اور جعلی سند کا بھانڈا پھوٹ جائے گا۔اس تحقیق کے بعد توقع ہے کہ آئندہ ایوان کے ’’مچھلی بازار‘‘ بننے کے امکانات نہ ہونے کے برابر رہ جائیں گے۔’’زندہ باد گوری تحقیق‘‘یہ ہماری دلی آواز ہے۔

شیئر: