سرکاری سرپرستی ختم ہوئی تو فٹبال نے بھی دم توڑ دیا، کھلاڑی بددلی کا شکار ہوکراس کھیل سے منہ موڑ گئے
- - - - - - - - - - - - -
عنبرین فیض احمد ۔ کراچی
- - - - - - - - - - -
کہا جاتا ہے کہ اگر انسان کا جسم توانا ہو تو یقینا اس کا دماغ بھی توانا ہوتا ہے لہٰذا جسم و دماغ کو توانا رکھنے کیلئے کھیل کتنا ضروری ہے اس کا اندازہ سب کو ہے۔ تروتازہ اور چاق و چوبند رکھنے میں کھیل مدد دیتے ہیں۔ ان سے دماغی صلاحیتوں کو بھی جلا ملتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ غور وفکر کی عادت کو بھی نشونما ملتی ہے۔ قوت ارادی اور قوت فیصلہ مضبوط ہوتی ہے جبکہ کھیلو ں سے قائدانہ صلاحیتوں میں اضافہ بھی ہوتا ہے جو معاشرے کا بہترین شہری بننے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ کھیلوں کی اہمیت ہر دور میں تسلیم کی جاتی رہی ہے کیونکہ کھیل انسانی زندگی پر خوشگوار اثرات مرتب کرتے ہیں۔ جب انسان ذہنی طو رپر تھک جاتا ہے تو اس کیلئے تفریحی مشاغل اور کھیل کو د کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ذہنی تھکاوٹ سے نجات مل سکے۔ کھیل خواہ ہاکی ہو، کرکٹ، اسکواش، بیس بال، سائیکلنگ ، ایتھلیٹکس وغیرہ کچھ بھی ہو، ان سب سے جسمانی ورزش ہی مقصود ہوتی ہے، جنہیں ضرور اپنانا چاہئے۔ بدقسمتی سے اکثر کھیلوں کو ہمارے ہاں اتنی اہمیت نہیں دی جاتی جتنی اہمیت کے وہ حامل ہوتے ہیں۔ دنیا بھر کامقبول ترین کھیل فٹبال ہے لیکن ہمارے ملک میں اس کھیل کو دیگر کھیلوںکے مقابلے میں پسماندہ رکھا گیاہے۔ دیکھا جائے تو فٹبال بہت دلچسپ کھیل ہے جسے شائقین بہت دلچسپی اور انہماک سے دیکھتے ہیں۔
یوں تو دنیا بھر میںچھوٹے بڑے کئی کلبوں اور ممالک کے مابین میچز ہوتے ہیں لیکن جرمنی اور برازیل کے مقابلے کافی کانٹے دار ہوتے ہیں۔ اس کھیل میں زیادہ سازوسامان کی بھی ضرورت نہیں پڑتی صرف ایک گیند درکار ہوتی ہے لیکن کھیل میں اتنی بھاگ دوڑ ہوتی ہے کہ اچھی خاصی جسمانی ورزش ہوجاتی ہے۔ دیگر کئی کھیلوں کی طرح فٹ بال میں بھی دو ٹیمیں ہوتی ہیں جبکہ کھیل کو منظم کرنے کیلئے ریفری بھی گراؤنڈ میں موجود رہتا ہے۔ ریفری کی جانب سے بجائی جانے والی سیٹی کے ساتھ ہی دونوں ٹیمیں انتہائی جوش و جذبے سے کھیل شروع کردیتی ہیں اور ایک دوسرے کے گول پوسٹ پر حملے شروع ہوجاتے ہیں۔ سخت جدوجہد کی بدولت گیند مخالف کے گول پوسٹ کے قریب پہنچ جاتی ہے اور فارورڈ کئی کھلاڑیوں کو چکمہ دے کر گیند جال میں پھینک دیتا ہے اورگول کیپر منہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔
یوں گول کرنے والی ٹیم کو برتری حاصل ہو جاتی ہے جسے ختم کرنے کیلئے دوسری ٹیم سخت جدوجہد شروع کر دیتی ہے جبکہ گول داغنے والی ٹیم اپنی برتری مستحکم کرنے کیلئے کوشاں رہتی ہے۔ اسی کشمکش میں پہلا ہاف ختم ہوجاتا ہے۔ دوسرے ہاف میں برتری حاصل کرنے کی جدوجہد جاری رہتی ہے ۔ بعض مرتبہ اچھے کھیل کے باوجود قسمت ساتھ نہیں دیتی اور توقعات کے برعکس بہتر ٹیم میچ ہار جاتی ہے۔ دھنک کے صفحہ پر جو تصویر شائع کی گئی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں دیگر کھیلوں کے مقابلے میں فٹبال کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی جبکہ فٹبال ترقی یافتہ ممالک کا بھی پسندیدہ کھیل ہے۔ یوں تو ہمارے ملک میں اس کھیل پر کوئی خاص توجہ نہیں لیکن سیالکوٹ میں عالمی معیار کی فٹبال تیار کی جاتی ہیں۔ تصویر میں کراچی پریس کلب کے باہر جو مظاہرہ کیا جارہا ہے اس میں مظاہرین فٹبال سے بے اعتنائی برتنے پر آواز بلند کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی ایسا کلب نہیں جس کے ذریعے وہ اپنے پسندیدہ کھیل سے اپنا شوق پورا کرسکیں ۔یہی نہیں بلکہ حکومتی سرپرستی کے ذریعے بین الاقوامی کھیلوں میں بھی اپنا اور اپنے ملک کا روشن کرسکیں۔ جس طرح اکثر کھیلوں کی انجمنیں اور اکیڈمیاں قائم کی جاتی ہیں جو کھیلوں اور اس سے منسلک کھلاڑیوں کی سرپرستی کرتی ہیں ، انہیں ہر ممکن تعاون دینے کی کوشش کرتی ہیں لیکن فٹبال کیلئے ایسا کچھ نہیںکیاجاتا۔ دوسرے کھیلوں کے مقابلے میں دیکھا جائے تو فٹبال انتہائی سستا کھیل ہے لیکن اس میں ہر طرح کے بے شمار فوائد موجود ہیں۔ فٹ بال میں جسمانی ورزش دیگر کھیلوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں فٹبال کے ٹیلنٹ کی کمی نہیں لیکن کیونکہ عوام میں یہ کھیل اس طرح مقبول نہیں جس طرح کرکٹ ہے، اس لئے پاکستان میں فٹ بال کوگھاس نہیں ڈالنے و الا کوئی نہیں۔
اس کی وجوہ کیا ہیں، اس سلسلے میں مکمل تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام کی بڑی تعداد آج بھی ہمارے ملک میں فٹبال کو بہت پسند کرتی ہے ۔ ان کی خواہش ہے کہ فٹبال بھی ہمارے ملک میں پروان چڑھے۔ ماضی میں پاکستان نے بڑے نامی گرامی فٹبالر پیدا کئے۔ جب پاکستان کا دوسرا حصہ مشرقی پاکستان،ہمارے ساتھ ہوا کرتا تھا، اس وقت محمڈن کلب میں مکران سے تعلق رکھنے والے نوجوان فٹبال شوق سے کھیلا کرتے تھے۔ انہیں بھاری معاوضہ اسی طرح ملا کرتا تھا جس طرح آج کرکٹ میں پاکستانی کھلاڑیوں کو بیرون ملک کھیلنے پر ملتا ہے۔ محمڈن کلب سالانہ ٹورنامنٹس منعقد کرایا کرتا تھا لیکن مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہونے کے بعد رفتہ رفتہ سرکاری سرپرستی ختم ہونے پر اس کھیل نے بھی دم توڑ دیا۔ کھلاڑی بھی بددلی کا شکار ہوکر فٹبال سے منہ موڑ گئے۔ پنجاب ،آبادی کے لحاظ سے ملک کا بڑا صوبہ ہے۔
وہاں بھی اکثریت کرکٹ کو پسند کرتی ہے جبکہ دوسرا کھیل ہاکی ہے۔ پاکستان اسپورٹس بورڈ کوچاہئے کہ نوجوانوں کوفٹ بال کی طرف راغب کرنے کیلئے ترغیبات دینی چاہئیں تاکہ ملک میں اسے فروغ حاصل ہو۔ جب زیادہ سے ز یادہ نوجوان کھیلوں کی طرف راغب ہونگے تو اس سے نہ صرف انہیں فائدہ پہنچے گا بلکہ ملک میں پھیلی دہشت گردی کی وباء پر بھی قابو پانا ممکن ہو سکے گا۔ کھیلوں کے فروغ سے پرامن معاشرے کا قیام ممکن ہی نہیںبلکہ یقینی ہوجائے گا۔ پنجاب حکومت کو چاہئے کہ فٹ بال کا شوق رکھنے والے نوجوانوں کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی اور سرپرستی کرے۔ قومی اور نجی ادارے بھی فٹ بال کے کھلاڑیوں کو زیادہ سے زیادہ اپنے ہاں مواقع فراہم کریں تاکہ یہ کھلاڑی معاشی پریشانی سے آزاد ہوکر اپنی پوری توجہ فٹبال کے کھیل پر دے سکیں۔