Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’آئندگان‘‘ کودرسِ حمیت دینے والی گود، احساس سے عاری

نسوانیت وہ خاصیت ہے جو مستور ہو کر عیاں ہوتی ہے، اسے بے لگام ہو کر سڑ کو ں پر گھو منے سے آزادی نہیں مل سکتی
- - - - -  - - - - - -
تسنیم امجد ۔ریاض
- - -  - - - - - - -
آج کی سو سا ئٹی گلو بل ہے۔ بالوا سطہ یا بلا واسطہ پو ری دنیا ایک دوسرے کے قریب آ چکی ہے۔ یہ اب انسان پر منحصر ہے کہ وہ اس قربت کے کو ن سے پہلوؤں سے متاثر ہو تا ہے ۔صفحہ دھنک پر اسکو ٹی چلا تی خاتون ہمارے معا شرے کی ترجمان نہیں۔ایک طرف تو چھینا چھپٹی کا ماحول ہے ا کثر یہی دہا ئی سننے کو ملتی ہے کہ پرس چھن گیا یا تنگ کیاگیا پھر نہ جانے کیوں آج کی عو رت اس تماشے کو دعوت دیتی ہے ۔ہم تصویر کے دو رخ اور سوچ کے دو رخوں کے ما بین بٹ کر رہ گئے ہیں۔ حال ہی میں آپا نے بتایا کہ ان کے پڑ وس میں ایک لڑ کی موٹر سا ئیکل پر ہی کا لج جا تی تھی اوروا پسی پر گھر کے خا صے کام نمٹا تی ہو ئی لوٹتی تھی۔
شام میں بھی اماں کے کچھ نہ کچھ کام ہوتے تو خوشی خو شی کر دیتی ۔ اکثر محلے کی لڑکیاں وا لدین سے بضد ہو تیں کہ انہیں بھی اسکو ٹی دلا دیںلیکن ایک دن خبر ملی کہ محلے کے ہی کچھ لڑ کے جو مو قعے کی تلاش میں تھے کہ کسی طر ح اس سے مو ٹر سا ئیکل چھینی جا ئے ،انہوں نے کالج کے راستے میں اسے گھیرلیا اور مو ٹر سائیکل کے ساتھ ساتھ پرس ورس چھین کر بھا گ کھڑے ہوئے۔
بہر حال پولیس آ ڑے آئی اور اُچکے پکڑے گئے۔ وہ مو ٹر سا ئیکل اور پرس واپس کر تے ہو ئے بو لے کہ یہ ہماری غیرت کو للکا ر تی تھی۔ ہم نے اس کے وا لد صاحب کو با ر ہا کہا لیکن ان پر کچھ اثر نہ ہوا۔ اب تو ہما ری بہنو ں کو بھی شوق چڑ ھا ہے ۔ ہما رے پاس اس کے علاوہ اور کو ئی چا رہ نہ تھا ۔ یہ سب سن کر یقین ہوا کہ ہم اپنی روایات و ثقافت کے حصارمیں اس طرح جکڑے ہوئے ہیں کہ ہزار کوشش کے باوجود باہر نہیں آ سکتے ۔
ہمارا معا شرہ اگرچہ معا شی تقسیم کے تحت بظاہر بٹ چکا ہے لیکن ذہنی طور پر ہم اپنی پہچان کے تابع ہیں۔ما ڈرن گھرانوں میں بھی ہم نے والدین کو کسی نہ کسی انداز میں اولاد کو تنبیہ کرتے دیکھا ہے ۔ حالات کو جانتے ہوئے خواتین کا اس طرح باہر نکلنا خود اپنے وقار کو پامال کرنے کے مترادف ہے ، اسے نہ حقوق کی بازیابی کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی تر قی ۔یہ آزادی بلکہ بے لگام آزادی ہے۔دین اسلا م نے عو رت کو وہ بلند مقام عطا فر ما یا ہے جس کا تصور کسی اورمذہب میں محال ہے۔ماں کے روپ میں اس کے قد موں تلے جنت کا کیا خوبصورت تحفہ ہے مگرافسوس آج کی عورت نے اس بلندی کے با وجود حقوق کے نام پر خود کو اتنا گرالیا کہ اکثر سر ندامت سے جھکنے لگے۔ آج یہ فیشن شوز اور کیٹ واک جیسی خرافات میں الجھ کر عذاب کو للکار رہی ہے لیکن کیا کیا جائے کہ اپنے تئیں وہ اسے حقوق کی بازیابی سمجھ رہی ہے ۔ کاش اسے احساس ہو جا ئے کہ و ہ پو رے معا شرے کی عمارت کی بنیادی اینٹ کی ما نند ہے۔اجداد کون تھے ، ان کے اطوار کیا تھے، جب آئندگان کودرسِ حمیت دینے والی گودخود ہی احساس سے عاری ہو جائے تو امید کس سے رکھیں ؟ کبھی ہم وطن اور کبھی حکومت کر نے والوں سے شکوہ کرتے ہیں لیکن اپنی ذات پر توجہ نہیں دیتے جبکہ سب سے پہلے ذاتی محاسبے کی ضرورت ہے۔ نظریے پر عمل کرنے کے لئے تو ہم نے ایک طویل مسافت طے کی مگر پھرہم نے اپنے اللہ کریم سے کئے ہوئے وعدے توڑ ڈالے اور افراتفری و ٹینشن کا شکار ہو گئے۔ علم و آگہی وہ روشنی ہے جسے قر آن کریم نے نور سے تعبیر فر ما یا ہے۔ہمیں آج اسی نور کی ضرورت ہے۔
کاش ہماری زندگی کا ہر رخ اپنے دین عالی کے تا بع ہو جا ئے۔انسان کی پہچان ہی اس کی حقیقت ہے جب اس نے اس سے منہ موڑ لیا تو کہیں کا نہیں رہا ۔جدید ٹیکنالوجی سے واقفیت اور اس کے استعمال کا طریقہ معلوم ہونا ضروری ہے لیکن اس کی نما ئش ضروری نہیں۔ قدرت نے مرد اور عو رت کے مابین فرق رکھاہے ، اس فرق کو نظر انداز کرنا، درخور اعتناء نہ جاننا فطر ی حقا ئق سے رو گر دا نی کے سوا اور کچھ نہیں۔ برتری اور کمتری کے احساس کا شکار عورت میدان عمل میں نکلنے کے لئے ہر وقت تیار رہتی ہے ۔ یہ بلا شبہ کم عقلی ہے۔ عورت میں قدرت نے گھر گرہستی کی صلا حیتیں اس قدر وافر عطا فرمائی ہیں جن کا اسے خود اندازہ نہیں۔دین سے انحراف کی صورت میںدل سیاہ اور مردہ ہو جا تے ہیں۔اقدار سے متصادم ہو نے وا لی جدیدیت ہمیشہ شرمند گی کا باعث بنتی ہے۔ عورت کی عزت و ناموس چادراور چہار دیواری سے قائم ہے ۔
بچپن کی ایک یاد کایہاں ذکر کرتے ہیں۔ ریلوے اسٹیشن پر ہم اپنے دادا کے ہمراہ ٹرین کا انتظار کر رہے تھے کہ سامنے ایک کمرے کے باہر مستو رات کا بورڈ لگا دیکھ کر ہم نے دادا ابا سے ڈھیروں سوا لات کر ڈالے ۔ان دنوں ہمیں اس کا مطلب نہیں معلوم تھا ۔دادا کے لیکچر میں سے جو ہمیں آج تک یاد ہے وہ یہی ہے کہ بیٹا عورت مستور یعنی پوشیدہ رکھے جا نے والی ہستی ہے۔ نسوانیت وہ خاصیت ہے جو مستور ہو کر عیاں ہوتی ہے۔
جو معصو میت ، احساس تحفظ اور آزادی اسے چار دیواری میں میسر ہے وہ یوں بے لگام ہو کر سڑ کو ں پر گھومنے سے نہیں مل سکتی۔ ایک حالیہ خبر کے مطا بق زیا دتی کا شکار ہو نے والی خوا تین کی تعداد میں اضافہ لمحہ فکر یہ ہے۔ خواتین کے خلاف تشدد کی شرح صحت کے عالمی مسئلے کے مساوی ہے۔ ہمارے ہاں جن ممالک کی نقا لی کی جا تی ہے وہا ں کی خواتین بھی تشدد کے مسا ئل سے دو چا ر ہیں جن میں لاطینی امریکہ ، شما لی امریکہ اور یو رپ شا مل ہیں۔سوال یہ ہے کہ یہ خواتین تو حقوق یافتہ ہیں جن کا پیٹا ہوا ڈھنڈورا سن کر مشر قی عورت خود کو مظلوم ،قیدی اوربا ندی سمجھنے لگی ہے حا لا نکہ اس کی وجہ وہ لا علمی ہے جو دین اسلام سے دوری کے نتیجے میں ان کے حصے میں آئی ہے۔ اپنے فرائض کو خوش اسلوبی سے نبھانے میں ہی زندگی کا مزہ ہے ۔
ما ضی کے تجر بات کی روشنی میں ہی وہ زندگی مقدر ہوتی ہے جوالجھنو ں سے پاک ہوتی ہے۔ ترقی کا لیبل لگنے کے باوجود آج عو رت پر معا شر تی بگا ڑ کی ذمہ داری ڈالی جا رہی ہے،آ خر کیو ں ؟ اس معاشرے سے سوال ہے کہ عورت کو گھر کی چار دیواری سے با ہر نکال کر سر ما یہ دا را روں کی معیشت کو چمکا نے کا ذریعہ کیوں بنا یا گیا۔اسے لفظوں کی خوشنما ئی کے غلاف میں لپیٹ کر حقیقت میں ما ضی کی سیا ہ گہرا ئیوں میں دھکیلا گیا ۔ یہ بیچاری ایڑ ی چوٹی کا زور لگا کر سینما ،ٹیلی وژن،ڈرامے کی شکلوں میں اپنے وجود کی اہمیت منوا نے میں لگ گئی۔اسے لاٹری کا ٹکٹ سمجھا گیامگر اسے اپنی بے وقعتی کی خبر ہی نہ ہو پائی۔اپنی تہذ یب اور روایات کے پر خچے اڑا کر بھی یہ خالی ہا تھ رہی۔اس کا حل صرف اور صرف اسلام کے زریں اصولوں کی جا نب پلٹنے میں ہے۔

شیئر: