Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’راستہ‘: ساؤتھ انڈین سنیما میں کوئٹہ کے اداکار کی انٹری

عمان میں شوٹ ہونے والی ملیالم زبان کی انڈین فلم ’راستہ‘ آج سے عمان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت دیگر خلیجی ممالک میں سینما گھروں کی زینت بن رہی ہے۔
یہ فلم انڈیا، برطانیہ اور دنیا کے دیگر ممالک میں بھی آج ہی کے روز ریلیز ہو رہی ہے۔
اس فلم میں پاکستان کے صوبے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان اداکار سمیع سارنگ نے بھی کردار ادا کیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کسی پاکستانی نے ساؤتھ انڈین فلم میں کام کیا ہے۔
’راستہ‘ دنیا کے بڑے صحراؤں میں سے ایک صحرائے الربع الخالی میں 2011 میں پیش آنے والی ایک دل دہلا دینے والی سچی کہانی پر مبنی ہے جس میں ایک لڑکی اپنی کھوئی ہوئی ماں کو ڈھونڈنے خلیج کا سفر کرتی ہے اور پھر صحرا میں کھو جاتی ہے۔
سعودی عرب، یمن،متحدہ عرب امارات اور عمان تک ساڑھے چھ لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلے دنیا کے اس بڑے صحرا میں کوئی آبادی نہیں۔ یہاں کا سخت ترین ماحول اسے موت کی وادی بناتا ہے۔
صحرا میں بقا کی جنگ لڑنے کی منفرد کہانی پر مبنی یہ مکمل طور پر عمان میں شوٹ ہونے والی پہلی انڈین فلم ہے جسے کولنوسری نواس نے پروڈیوس کیا ہے اور اسے عمان کے معروف کاروباری گروپ کے الو انٹرٹینمنٹ کے بینرز تلے بنایا گیا ہے۔ فلم کو ملیالم کے علاوہ عربی زبان میں بھی پیش کیا جا رہا ہے۔ 
اس کے ہدایت کار انیش انور ہیں جو اس سے پہلے بھی کئی اچھی فلمیں بنا چکے ہیں۔ فلم میں جنوبی ہندوستان کی ملیالم فلم انڈسٹری کے معروف ادا کاروں سرجانو خالد، اناگا نارائن، آرادھیا این، سدھیش، ارشاد علی، ٹی جی روی کے علاوہ مشہور عمانی اداکاروں خمیس الراوی، فخریہ خمیس العجمی اور شمع سعید البرکی نے بھی کردار نبھائے ہیں۔

’راستہ‘ ایک سچے واقعے پر مبنی ہے جس میں ایک لڑکی صحرا میں بھٹک جاتی ہے (فوٹو: اردو نیوز)

عمان میں رہائش پذیر کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سمیع سارنگ کو اس فلم میں پولیس افسر کا اہم کردار دیا گیا ہے جو فلم میں صحرا میں کھوئے ہوئے افراد کی تلاش کے لیے ریسکیو آپریشن کی سربراہی کرتا ہے۔
سمیع سارنگ نے ’اردو نیوز‘ کو انٹرویو میں بتایا کہ ’میں انڈین فلم میں کام کرنے کا موقع ملنے پر کافی خوش اور پرجوش ہوں۔ میں اسے اپنے لیے بڑے فخر اور اعزاز کی بات سمجھتا ہوں۔ یہ شاید پہلا موقع ہے کہ کوئٹہ یا بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کسی پاکستانی نے ساؤتھ انڈین فلم میں کام کیا ہے۔‘
سمیع سارنگ کے مطابق ’راستہ‘ محبت، سنسنی خیزی اور جذبات پر مبنی دلچسپ کہانی ہے جو شائقین کو پسند آئے گی۔ یہ بڑے بجٹ اور معیار کی فلم ہے جس میں ملیالم زبان کے اہم ادکاروں نے کام کیا ہے۔

سمیع سارنگ نے فلم میں ریسکیو ورکر کا کردار نبھایا ہے (فوٹو: اردو نیوز)

ان کا کہنا تھا کہ انڈین اداکاروں کے ساتھ کام کرنے کا ان کا یہ دوسرا تجربہ ہے۔ اس سے پہلے بھی وہ ایک تمل زبان کی فلم میں کام کر چکے ہیں لیکن تب ان کا کردار بہت چھوٹا تھا۔
سمیع نے بتایا کہ ’اس مقام تک پہنچنے کے لیے مجھے بڑی جدوجہد کرنا پڑی۔ اسلام آباد سے ابلاغیات میں ڈگری لینے کے بعد ریڈیو میں بطور آر جے اور ٹی وی چینلز میں انٹرن شپ کی، اس کے بعد 2013 میں شکیل عدنان ہاشمی کے ساتھ مل کر سحر کے نام سے ایک فلم بنائی جو پی ٹی وی کوئٹہ سینٹر سے چلی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’10 سال پہلے ایک دوست کے توسط سے مجھے عمان جانے کا موقع ملا جہاں ہم نے ایک پروڈکشن ہاؤس بنایا اور پھر سنگت کے نام سے پاکستان کی پہلی ایسی بلوچی فلم بنائی جو بیرون ملک بنی تھی۔‘

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سمیع سارنگ انڈین فلم میں کام کا موقع ملنے پر بہت خوش ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

انہوں نے بتایا کہ ’اس کے بعد میں نے کئی شارٹ فلمز بنائیں۔ ماڈل اور اداکار کے علاوہ ڈائریکٹر کے طور پر بھی کام کیا جس پر 2017 میں عمان میں ایوارڈ بھی ملا۔ اس کے علاوہ میں عمان فلم سوسائٹی کے رکن کی حیثیت سے مختلف فلم فیسٹیولز میں جیوری کا حصہ بھی رہا۔‘
ملیالم فلم کی ٹیم نے ان کا انتخاب کیسے کیا؟ اس حوالے سے سمیع سارنگ نے بتایا کہ ’عمان میں بھارتی کمیونٹی انہیں جانتی تھی۔ سوشل میڈیا پر میرا کام دیکھ کر فلم کی ٹیم نے رابطہ کیا۔‘
انہوں نے بتایاکہ 'مجھے ایک نسبتاً کم اہم کردار کے لیے بلایا گیا تھا لیکن آڈیشن میں میری کارکردگی پسند آنے پر ڈائریکٹر نے مجھے ریسکیو آپریشن کمانڈر کا کردار دیا جو مرکزی کرداروں میں سے ایک ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ یہ پہلی انڈین فلم ہے جو مکمل طور پر عمان میں شوٹ ہوئی ہے۔ اس کی شوٹنگ عمان کے مختلف شہروں کے علاوہ دنیا کے عظیم الربع الخالی میں بھی ہوئی جہاں ہمیں ریت کے طوفانوں اور دیگر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
سمیع سارنگ نے بتایا کہ پروڈیوسر، ڈائریکٹر اور اداکاروں سمیت پوری ٹیم نے نہایت پیشہ ورانہ انداز میں کام کیا۔ ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔‘

فلم میں عمان کے مقامی اداکاروں نے بھی کام کیا ہے (فوٹو: اردو نیوز)

ان کا کہنا تھا کہ ’عمان میں بڑی انڈین کمیونٹی رہتی ہے یہاں پاکستانی اور بنگالی بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں لیکن یہاں ہم سب کے درمیان کوئی سرحدیں اور رکاوٹیں نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سیینئر اداروں کے ساتھ کام کرنا بڑا چیلنج تھا۔ اسی طرح ملیالم زبان سمجھ نہ آنے کی وجہ سے بھی مجھے کافی جدوجہد کرنا پڑی لیکن اس سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو بھی ملا۔
سمیع سارنگ نے کہا کہ ’یہ میرا ڈریم پراجیکٹ تھا۔ عمان میں دس برسوں کی جدوجہد کے بعد مجھے بڑا پلیٹ فارم ملا۔ میری خواہش ہے کہ پاکستانی فلم انڈسٹری میں بھی کام کرنے کا موقع ملے۔‘
سمیع سارنگ نے بتایا کہ ان کا تعلق کوئٹہ سے ہے اور انہوں نے ابتدائی اور ثانوی تعلیم کوئٹہ سے ہی حاصل کی، وہ کاکڑ قبیلے کی ذیلی شاخ سارنگزئی سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے اپنے نام کے ساتھ سارنگ لکھتے ہیں۔

شیئر: