Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مخالفت کے باوجود اسرائیل رفح میں زمینی کارروائی کیوں کرنا چاہتا ہے؟

چودہ لاکھ فلسطینی رفح میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
اسرائیل غزہ کے جنوبی شہر رفح میں حماس کے خلاف زمینی کارروائی کے لیے کئی مرتبہ اپنے عزم کا اعادہ کر چکا ہے جبکہ دوسری جانب عالمی سطح پر اس منصوبے کی بھرپور مخالفت کی جا رہی ہے۔
خبر رساں اداے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق امریکہ، مصر اور قطر  اس امید کے ساتھ جنگ بندی معاہدے پر زور دے رہے ہیں کہ اس سے رفح پر حملے کا منصوبہ ٹَل جائے گا لیکن اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے منگل کو ایک مرتبہ پھر اس عزم کا اعادہ کیا کہ ’معاہدہ یا اس کے بغیر‘ حماس کو تباہ کرنے کا ہدف پورا کرنے کے لیے فوج رفح میں داخل ہوگی۔
نیتن یاہو نے کہا ’ہم رفح میں داخل ہوں گے کیونکہ ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ ہم حماس کی بٹالین کو تباہ کریں گے۔ ہم جنگ کے اپنے تمام اہداف پورے کریں گے جس میں تمام یرغمالیوں کی واپس بھی شامل ہے۔‘
اسرائیل نے حملے کے لیے عسکری منصوبوں کی منظوری دے دی ہے اور اپنی فوجیں اور ٹینک جنوبی اسرائیل منتقل کر دی ہیں تاہم فی الحال یہ نہیں معلوم کہ حملہ کب ہوگا۔
چودہ لاکھ فلسطینی یعنی غزہ کی نصف آبادی سے زیادہ افراد بدترین حالات میں رفح میں پناہ لیے ہوئے ہیں جو اسرائیلی حملوں کے باعث یہاں نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔
اسرائیل کے لیے رفح اس قدر اہم کیوں ہے
سات اکتوبر کو حماس کے حملے کے جواب میں اسرائیل نے جنگ کا اعلان کیا اور کہا کہ ان کا مرکزی ہدف حماس کی عسکری صلاحیتوں کو تباہ کرنا ہے۔
اسرائیلی فوج کے مطابق غزہ میں آپریشن کے دوران حماس کی 24 بٹالین میں سے 18 کو ختم کیا گیا اور اب رفح حماس کا آخری اہم گڑھ ہے۔
لیکن شمالی غزہ جو اسرائیلی حملوں کا پہلا ہدف تھا، وہاں کچھ علاقوں میں حماس ایک مرتبہ پھر منظم ہو گیا ہے اور مسلسل حملے کر رہا ہے۔

رفح پر حملے کے منصوبے کی عالمی سطح پر بھرپور مخالفت کی جا رہی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کی رفح میں چار بٹالین موجود ہیں اور انہیں ختم کرنے کے لیے زمینی فوجیں بھجوانا ضروری ہے۔
چند اعلیٰ عسکریت پسندوں کے رفح میں چھپنے کا شبہ بھی ظاہر کیا گیا ہے۔
اسرائیلی منصوبے کی اتنی زیادہ مخالفت کیوں؟
امریکہ نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ ’قابل عمل‘ منصوبے کے بغیر رفح میں آپریشن کا آغاز نہ کرے۔ مصر جو اسرائیل کا سٹراٹیجک شراکت دار ہے، کا کہنا ہے کہ غزہ اور مصر کی سرحد پر اسرائیلی فوج ک قبضہ یا فلسطینیوں کو مصر میں دھکیلنے کا کوئی بھی اقدام اسرائیل کے ساتھ اس کے چار دہائیوں پرانے امن معاہدے کو خطرے میں ڈال دے گا۔
گزشتہ سال اکتوبر سے اسرائیل کے زمینی اور فضائی حملوں کے نتیجے میں شمالی اور جنوبی غزہ کے علاقے بدترین تباہی کا شکار ہوئے تھے اور سینکڑوں افراد کی موت واقع ہوئی جبکہ ان آپریشز سے قبل علاقہ خالی کرنے کے احکامات بھی جاری کیے گئے تھے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ حملے سے پہلے وہ رفح کے شہریوں کو وسطی غزہ میں ’انسان جزیروں‘ پر منتقل کر گا اور لوگوں کو شیلٹر فراہم کرنے کی غرض سے ہزاروں کی تعداد میں خیمے آرڈر کر دیے ہیں۔
تاہم اس منصوبے کے حوالے سے مزید تفصیلات نہیں فراہم کی گئی ہیں۔ فی الحال یہ بھی واضح نہیں ہے کہ اتنی بڑی آبادی کو ایک ساتھ لاجسٹیکلی منتقل کرنا ممکن بھی ہے یا نہیں۔
علاہ ازیں اقوام متحدہ کے حکام کا کہنا ہے کہ رفح پر حملے سے اس کا امدادی آپریشن تباہ ہو کر رہ جائے گا جو غزہ کی پٹی کی آبادی کو زندہ رکھے ہوئے ہے اور ممکنہ طور پر فلسطینیوں کو قحط اور اجتماعی موت کی طرف دھکیل دے گا۔
دوسیری جانب شمال میں کچھ داخلی راستوں کو کھول دیا گیا ہے اور امریکہ نے وعدہ کیا ہے کہ سمندر کے راستے سامان لانے کے لیے ایک بندرگاہ چند ہفتوں میں تیار ہو جائے گی۔ لیکن اکثر خوراک، ادویات اور دیگر سامان مصر سے رفح کے راستے یا قریبی کریم شالوم کراسنگ کے ذریعے غزہ میں داخل ہوتی ہے اور حملے کی صورت میں  یہ آمد و رفت ناممکن ہو جائے گی۔

امریکہ سمیت عالمی برادری رفح پر حملے کی مخالفت کر چکی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

امریکہ نے کہا ہے کہ اسرائیل کو رفح کے اندر کسی بڑے زمینی حملے کے بغیر حماس کے خلاف ’پن پوائنٹ آپریشن‘ کرنے چاہپں۔
رفح پر حملے کے سیاسی نتائج
رفح پر حملے کا سوال نیتن یاہو کے لیے سنگین سیاسی نتائج رکھتا ہے۔ اگر وہ اس منصوبے پر عمل درآمد نہیں کرتے تو ان کی حکومت ختم ہونے کے خطرے سے بھی دوچار ہو سکتی ہے۔ 
اگر وزیر اعظم نیتن یاہو جنگ بندی کے معاہدے کا عندیہ دیتے ہیں جس سے حملہ رک جائے تو چند انتہائی قوم پرست اور قدامت پسند مذہبی رہنما حکومتی اتحاد سے علیحدگی بھی اختیار کر سکتے ہیں۔
نیتن یاہو کے ناقدین کا کہنا ہے کہ انہیں قومی مفاد سے زیادہ اپنی حکومت کو برقرار رکھنے اور اقتدار میں رہنے کی زیادہ فکر ہے تاہم وہ اس الزام کی تردید کرتے آئے ہیں۔
ان کے اتحادی ارکان میں سے ایک وزیر خزانہ بیزیل سموٹریچ نے منگل کو کہا کہ جنگ بندی کے معاہدے کو قبول کرنا اور رفح آپریشن نہ کرنا اسرائیل کا ’سفید جھنڈا اٹھانا‘ اور حماس کو فتح دلانے کے مترادف ہوگا۔
دوسری جانب رفح پر حملے کی صورت میں نیتن یاہو کو اسرائیل کی بین الاقوامی تنہائی میں اضافے اور اپنے سب سے بڑے اتحادی امریکہ سے علیحدگی کا خطرہ ہے۔

شیئر: