Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچپن، حیات انسانی کاحَسین ترین دور

 
گھر میںکھانے کی جو چیز آتی،پہلے ہمیں ملتی کیونکہ ہم چھوٹے تھے
ثمینہ عاصم۔ جدہ
اتفاق سے ہم گھر میں سب سے چھوٹے تھے اس لئے شرارت کرنے پر سب سے ڈانٹ پڑتی تھی۔ کبھی کبھار ا یسا لگتا تھاکہ جیسے گھر کے سارے کام ہمارے سر پر ڈال دئیے گئے ہیں کیونکہ کبھی ادھر سے آواز آتی کہ پانی پلا دو، اُدھر سے کہا جاتا کہ میری قمیص استری کر دو۔ کوئی کہتا کہ جوتے پالش کر دو ۔یہی نہیں بلکہ کام کرو اور اوپر سے ڈانٹ بھی سنوکہ ” ابھی تک تمہیں گلاس تھامنے کی تمیز نہیں آئی۔ قمیص پر استری کرنے سے پہلے پانی کی پھوار کیوں نہیں ڈالی؟ “
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ چھوٹا ہونا کسی ٹینشن سے کم نہیں ۔ اگر کوئی مہمان آجاتے تو بسکٹ شسکٹ لانے کے لئے دکان پر ہمیں ہی بھگایا جاتا تھا۔ رات کو ہم ٹی وی کا آخری پروگرام دیکھ کر ہی سوتے تھے بشرطیکہ راگ رنگ کی محفل نہ شروع ہوجائے ۔ اگر ہم امی جان کی وجہ سے راگ رنگ کا پروگرام دیکھنے لگتے توہم گلوکاروں کی شکلیں دیکھ کر پریشان ہوتے کہ آخر ان کو ایسی کیا مجبوری ہے کہ اس قدر کرب اورا ذیت کے باوجود گائے جا رہے ہیں۔ اگرکہیں درد ہے ، کوئی تکلیف ہے تو گانا شانا چھوڑیں اور گھر جا کر آرام کریں۔
ہم رات کو دیر سے سوتے اور صبح ہوتے ہی یعنی اذان کی آواز کے ساتھ ہی امی کی آواز کانوں میں پڑنا شروع ہو جاتی کہ چلو اذان ہو گئی، اٹھو نماز پڑھو ۔صبح اتنی دیر تک سونا نحوست ہے۔ ہم بھی ڈھیٹ بن کربستر سے چپکے پڑے رہتے آخرکار جب صبح 6بجے ریڈیو سے تلاوت کی آواز آتی او رامی ہمیں اٹھانے کے لئے ریڈیو کی آواز فُل کر دیتیں۔
ریڈیو سے کچھ دیر کے بعد مخصوص لوک پنجابی گانا شروع ہو جاتاجس کے بول کچھ یوں ہوتے تھے کہ:
” کالا ڈوریا کنڈے نال اڑیا ای اوئے
 چھوٹا دیورا بھابھی نال لڑیاای اوئے
بالآخر ہم زبردستی آنکھیں کھولتے کیونکہ اسکول بھی جانا ہوتا تھا۔ جھومتے جھامتے، آدھے سوتے آدھے جاگتے، دانت مانجھتے، یونیفارم پہنتے، پراٹھا اخبار میں لپیٹتے اور بستے میں رکھ کر اسکول روانہ ہوجاتے ۔ اسکول میں داخل ہوتے ہی کلاس کی سہیلیوںکو دیکھ کر چہرے پر رونق آ جاتی اور نیند ویند سب بھاگ جاتی ۔
میری سہیلی اگر پہلے آجاتی تو میرے لئے جگہ رکھتی اور اگر میں پہلے پہنچ جاتی تو اس کیلئے نشست کے تحفظ کی ذمہ داری نبھاتی ۔ جب ہم دونوں ”شانہ بشانہ“ براجمان ہو جاتے تو پھر دنیا جہان کی باتیں شروع ہو جاتیںجو کبھی ختم نہ ہوپاتی تھیں۔
آدھی چھٹی کے وقت ہم ایک دفعہ کینٹین میں گئے ۔ وہاں ہمیشہ کی طرح بہت رش تھا۔ کینٹین میں داخل ہونا مشکل تھا۔ میری سہیلی جو باعتبارِ جثہ مجھ سے دگنی تھی، وہ لڑکیوں کو دھکا دے کر کینٹین میں داخل ہونے کی کوشش کرنے لگی ۔ میں اس کے پیچھے کھڑی تھی۔ جب وہ کنٹین کے دروازے سے ذرا آگے بڑھی تو اندر سے زور دار دھکا پڑا اور ہماری سہیلی سیدھی کمر کے بل زمین پر جا گری اور ہم اس کے نیچے تھے۔ سوچئے چیونٹی بے چاری ہاتھی کے زیر پا۔پھر کیا تھا، میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ ایک سموسے کی وجہ سے خوب تماشا بنا اور لڑکیوں نے خوب مذاق بنایا ۔
اسکول سے واپسی کے وقت بھی سب گھروں کی گھنٹیاں بجا کر چھپنا یا بھاگ جانا ہمارے لئے انتہائی ضروری اور پسندیدہ مشغلہ تھا۔ اگر کسی کے گھر میں سڑک کی جانب جھانکتا یا جھکا ہوا کوئی پھل دار اور خصوصاً آم ، امرود یا جامن کا درخت ہوتا تو وہاں سے بالترتیب کیریاں توڑنا ، امرود توڑنایا جامن توڑنا لازمی تصور کیا جاتاتھا۔
ہر چھٹی والے دن کوشش یہی ہوتی تھی کہ بستر سے ممکنہ حد تک روابط نبھائے جائیں ا ور دیر تک آرام فرمانے کی کوشش کی جائے لیکن وہی بات کہ "کالا ڈوریا "ہمیںسونے دے تب ناں۔ جب یہ گانا سمجھ میں نہیں آتا تھا تو کانوں میں چبھتا تھا لیکن اب چونکہ سمجھ آنے لگا ہے اس لئے اچھا لگتا ہے۔
بچپن میں ہم نے اپنے پسندیدہ کھیل کھیلے لیکن زندگی ایسا کھیل ہے جو ہماری سمجھ میں بالکل نہیں آیا۔ چھوٹے ہونے کے کچھ فائدے بھی ہیںجیسا کہ عید پر عیدی چھوٹوں کو ہی دی جاتی ہے اس لئے جب ہم چھوٹے تھے توسب گھر والے ہمیں عیدی دیتے تھے اور ہم خوب خوش ہوجاتے تھے ۔ گھر میں جو بھی کھانے پینے کی چیز آتی، وہ پہلے ہمیں ملتی تھی کیونکہ ہم چھوٹے تھے۔ کسی کے لئے سوٹ وغیرہ آتا تو ہمارے لئے بھی ضرور آتا، کیونکہ ہم چھوٹے تھے۔ بازار جاتے توآئس کریم یا سافٹ ڈرنک ضرور ملتا کیونکہ ہم چھوٹے تھے مگر اس کے ساتھ ہی نقصان یہ تھا کہ ہمیں بوجہ اور بے وجہ ڈانٹ پڑتی رہتی۔ غلطی کوئی کرتا اور سخت سست ہمیں سنائی جاتی ۔ان تمام باتو ں کے باوجود ہم تو یہی کہتے ہیں کہ بچپن حیات انسانی کاحَسین ترین دور ہے۔عمر کے باقی حصے میں انسان بچپن جیسی بے فکری اور آزادی کی تلاش کرتا رہتا ہے اور اسی جستجو میں دنیا سے چلا جاتا ہے ۔
 

شیئر: