Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دیار رسول ﷺمیں بیتے ہوئے لمحات

عبدالمالک مجاہد۔ریاض
بعض ایام بڑے مبارک ہوتے ہیں۔ان میں پیش آنے والے واقعات کی یادیں عرصہ دراز تک دل وجاں کو معطر رکھتی ہیں۔ 13ستمبر کو بدھ کا دن تھا اور میں ایک مرتبہ پھر اپنی اہلیہ کے ساتھ مدینۃ الرسولکے ائیرپورٹ پر اتر رہا تھا۔ اہلیہ کے ایک بھائی حافظ عبدالعظیم اسد حج پر آئے ہوئے تھے اور انہیں 2دن کے بعد وطن واپس جانا تھا۔اس سفر میں ان سے ملاقات بھی ضروری تھی۔ ادھرمجھے مدینۃ الرسولمیں متعدد کام تھے ۔اس کے علاوہ مسجد نبوی شریف میں نمازیں ادا کرنے کا اور روضہ مبارک پر حاضر ہو کر درود و سلام پیش کرنے کا اپنا ہی مزا اور لذت ہے۔ برادر عزیز منیب کبریا نے ہماری آمد کا سنا تو وہ خصوصی طور پر جدہ سے ہمارے استقبال کے لئے آ گئے۔ یہ وہ ایام تھے جب حجاج کرام چند روز پہلے ہی مناسک حج کی ادائیگی سے فارغ ہوئے تھے اور حج کے بعد اب مدینہ شریف میں حاجیوں کا ازدحام تھا۔ مسجد نبوی شریف حجاج کرام سے بھری ہوئی تھی۔ مجھے آج بہت سارے کام تھے۔ دارالسلام کی برانچ کے لئے نئی جگہ کا تعین بڑا اہم مرحلہ تھا۔ ان دنوں مدینہ شریف کے تمام ہوٹل بھرے ہوئے تھے۔ عزیزم عبدالغفار نے بڑی محنت کے بعد مسجد نبوی شریف کے قبلہ کی طرف ایک ہوٹل کا پتا لگا ہی لیا۔ ایک رات کا کرایہ800 ریال میرے بجٹ سے زیادہ تھا۔ مجھے خوب معلوم تھا کہ صرف چند دن کی تاخیر سے یہ ہوٹل آدھی قیمت پر آ جائیں گے، مگر کچھ مجبوریاں ایسی ہوتی ہیں کہ اووَر بجٹ خرچ کرنا ہی پڑتا ہے۔
دارالسلام کی مدت سے خواہش تھی کہ جرمن زبان میں قرآن پاک کا ترجمہ شائع کیا جائے۔ اس کے لئے مستند مترجم کا ملنا آسان کام نہیںتھا۔ میرا تجربہ ہے کہ اگر مترجم مدینہ یونیورسٹی کا فارغ التحصیل مل جائے تو اس پر خاصا اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ الحمدللہ! دارالسلام 25زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع کر چکا ہے۔ چند ایک تراجم طباعت کے مراحل میں ہیں، مگر جرمن زبان اُن اہم زبانوں میں ہے جس میں ہم قرآن پاک کا ترجمہ اور تفسیر شائع کرنا چاہتے تھے۔ میں کافی عرصہ سے مترجمین کی تلاش میں تھا۔ مختلف جگہوں پر بار بار رابطہ کیا ،کچھ مترجمین کے بارے میں اطلاع بھی ملی، مگر تسلی نہ ہوئی۔ جرمنی میں مسلمانوں کی تعداد خاصی بڑی ہے۔ یہاں پرسیکڑوں مساجد ہیں۔ جرمنی میں تقریباً5 ملین مسلمان بستے ہیں۔ ان میں اکثریت اُن ترکوں کی ہے جو دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی میں بس گئے تھے۔ اب تو ان کی تیسری نسل جوان ہو چکی ہے۔ یہ درست ہے کہ ان میں اکثریت مزدور طبقہ کی تھی، مگر وقت کے ساتھ ان لوگوں نے تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دی۔ اپنے مدارس اور مساجد تعمیر کیے۔ آج جرمنی میں اکثر مساجد انہی ترکوں کی بنی ہوئی ہیں۔
ترکی میں دارالسلام کے مندوب کا نام عبداللہ عبدالحمید اثری ہے۔ بڑا ہی خوبصورت نوجوان‘ لمبا قد ‘ بھاری جسم سفید رنگ ‘ لمبی داڑھی‘ خوبصورت لباس پہنے جب سال میں کم از کم 2مرتبہ ریاض میں ہمارے دفتر میں داخل ہوتے ہیں تو چہرے پر مسکراہٹیں سجاتے ہوئے آتے ہیں۔ ان کو دیکھتے ہی دل باغ باغ ہو جاتا ہے، پھر اُس روز کا کھانا ہم اکٹھے ہی تناول کرتے ہیں۔ انہوں نے استنبول میں مکتبہ الغرباء کے نام سے دار النشر بنایا ہوا ہے۔ جامع مسجد سلطان احمد کے قرب و جوار میں کئی مکتبات ہیں۔ ان مکتبات میں مکتبہ الغرباء ایک نمایاں مکتبہ ہے۔ آج سے کوئی 10,9 سال پہلے میں اپنے بچوں کے ہمراہ ترکی گیا تو ان کے مکتبہ میں بھی کئی گھنٹے گزارے۔ ہم نے ان کی وساطت سے ترکی زبان میں قرآن مجید اور ریاض الصالحین کا ترجمہ کروایا تھا۔ ریاض الصالحین حدیث کی بڑی معروف کتاب ہے۔ میری بہت پسندیدہ کتاب۔ الحمدللہ کہ میں 9 زبانوں میں اس عظیم کتاب کے تراجم کروا کے شائع کر چکا ہوں۔ اس سال کے شروع میں شیخ عبداللہ عبدالحمید اثری ہمارے ادارے میں تشریف لائے تو میں نے ان سے جرمن زبان میں ترجمۂ قرآن کا موضوع چھیڑ دیا۔ میری زندگی کے بے شمار تجربات میں ایک یہ بھی ہے کہ بعض اوقات آپ ہوا میں تیر چلاتے ہیں جو نشانے پر جا لگتا ہے۔ میں نے جب جرمن زبان کے مترجم کی بات کی تو شیخ عبداللہ کہنے لگے: میرا ایک شاگرد ابو انس ہے جو مدینہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہے اور جرمنی میں ہی پیدا ہوا ہے۔ وہاں دعوت و تبلیغ کا کام کرتا ہے۔ اس سے بات کر کے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے مجھے ابو انس کا نمبر دے دیا۔ کہنے لگے: میں اسے بطور تعارف فون بھی کر دوں گا اور پھر ایک دن میں ابو انس سے فون پر باتیں کر رہا تھا۔ ابو انس نے بتایا کہ ان کی پیدائش جرمنی کی ہے۔ والدین کا تعلق ترکی سے ہے اور وہ متعدد زبانیں بول لیتے ہیںجن میں عربی‘ انگلش ‘ ترکش ‘ جرمن ‘ البانی وغیرہ شامل ہیں۔ جرمنی میں ایک اسلامک سینٹر بھی چلا رہے ہیں۔ ان کے مطابق قرآن پاک کا جرمن زبان میں عمدہ ترجمہ موجود ہے ۔ ہم نے اس کا مراجعہ کر رکھا ہے۔ میں نے پوچھا کہ مترجم کون ہیں؟ معلوم ہوا کہ وہ وفات پا چکے ہیں ۔ بد قسمتی سے انہوں نے عمر بھر شادی نہ کی، اس لئے ان کی اولاد نہیں ۔
ابو انس ترکی میں ایک بڑی کنسٹرکشن کمپنی کے مالک ہیں ۔ انہوں نے اپنے کام کے بارے میں حیرت انگیز طور پر بڑے اعداد و شمار بتائے ۔ کہنے لگے: میں حج پر آ رہا ہوں۔ بلاشبہ حج ایک عالمی اجتماع ہے۔ دنیا بھر سے لوگ حج پر آتے ہیں۔ میل ملاقات کے لئے مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ بڑی عمدہ جگہ ہے۔ میں ذاتی طور پر مدینہ شریف میں اس قسم کی میٹنگ پسند کرتا ہوں کیونکہ یہاں مقابلتًا رش کم ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ 13ستمبر کی شام کو مدینہ پہنچ جائیں گے۔ عشاء کے بعد یا فجر کی نماز کے بعد آپس میں ملاقات ہو سکے گی۔13ستمبر کی رات گئے تک ابو انس کو فون ملاتا رہا، مگر وہ مسلسل بند جا رہا تھا۔ جس ہوٹل میں ہمیں جگہ ملی، وہ بلاشبہ بالکل نیاتھا، بلکہ 2 ہفتے پہلے ہی اس کا افتتاح ہوا تھا، مگر اس میں ابھی ناشتے کا انتظام نہیں تھا۔ کمرہ بہت ہی کھلا بلکہ انتظامیہ کے مطابق وی آئی پی روم تھا جس میں چائے کا بندوبست موجود تھا۔ 
فجر کی نماز مسجد نبوی شریف کے باہر صحن میں ہی ادا کی، کیونکہ حجاج کا بے حد اژدہام تھا۔ نماز کے بعد وہیں مصلے پر بیٹھا ذکر اذکار اور سورج نکلنے کا انتظار کرتا رہا۔ میں ابھی تک درود و سلام کے لئے روضہ کی طرف نہ جا سکا تھا۔ اشراق پڑھی تو اتنے میں رش خاصا کم ہو چکا تھا۔ میں نے اس دوران ابو انس کو کئی مرتبہ فون ملایا ،مگر ان کا فون مسلسل بند تھا۔ درود و سلام پڑھ کر باہر نکلا تو سامنے ابو تراب نور پوری نظر آ گئے۔ ابو تراب مدینہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔ مدتوں سے اب ان کی ڈیوٹی روضہ شریف پر ہوتی ہے۔ یہ لوگوں کو اردو ‘ پنجابی‘ انگلش ‘ عربی زبان میں ہدایات دیتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے مسائل میں رہنمائی کرتے ہیں۔ بد قسمتی سے لوگ یہاں آ کر بھی بدعات سے باز نہیں آتے۔ روضہ کی طرف ہاتھ باندھ کر اور کبھی ہاتھ اٹھا کر دعائیں مانگتے ہیں۔ ابو تراب کے ساتھ دیگر علماء کی ایک ٹیم ہے جو لوگوں کی دینی رہنمائی کرتی ہے۔ یہ بڑی لجاجت سے ‘ بڑی محبت ‘ پیار اور اخلاق کی زبان استعمال کرتے ہوئے ، انہیں بدعات سے روکتے ہیں۔ بلاشبہ کائنات میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں اگر کسی کا درجہ سب سے بلند وبرتر ہے تو وہ سید الاولین و الآخرین محمد کا ہے۔ آپ نے اپنی امت کو دین میں غلو کرنے سے منع فرمایا۔ ارشاد ہوا: 
’’لوگو !میرا مقام و مرتبہ اس طرح نہ بڑھانا جس طرح عیسائیوں نے عیسیٰ ابن مریم کا بڑھایا ہے۔میں اللہ کا رسول اور اس کا بندہ ہوں۔ عبادت اور بندگی صرف اللہ رب العزت کی ہے اور ہر ضرورت اسی سے طلب کی جائے گی۔‘‘
ابو تراب نور پوری نے میرا ہاتھ تھام لیا۔ کب آئے، کب روانگی، فون کیوں نہیں کیا؟وہ سوالات پر سوالات کرتے جا رہے تھے۔ کونسے ہوٹل میں ٹھہرے ہیں۔ میں نے معذرت خواہانہ انداز اختیار کیا۔ وضاحت کی کہ میں اس بار ذرا جلدی میں ہوں، اس مرتبہ قیام مختصر ہے۔ دراصل میں نے اپنی اہلیہ اور اس کے بھائی منیب کبریا کو فون کر دیا تھا کہ میں آ رہا ہوں، تم پارکنگ میں میرا انتظار کرو۔ ادھر ابو تراب صاحب نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا ہے، ان کی گرفت خاصی سخت تھی۔ اچانک انہوں نے بڑی خوبصورت پیشکش کر دی۔ کہنے لگے: میرے ساتھ چلیں، ریاض الجنۃ میں آپ کو نوافل پڑھا دوں گا۔ میں جب باب السلام سے مسجد نبوی شریف میں داخل ہوا تھا تو وہاں لا تعداد لوگ باری کے انتظار میں کھڑے تھے۔ کہنے لگے: میں آپ کا تعارف کروا دوں گا، فکر نہ کریں اجازت مل جائے گی، مجھے سب جانتے ہیں۔ ان کی پیشکش بڑی خوبصورت اور عمدہ تھی، اسے کون ٹھکرا سکتا تھا۔ میں نے اہلیہ کو فون کر دیا کہ میں ذرا تاخیر سے آؤں گا۔ ابو تراب نور پوری مجھے لے کرپولیس والوں کے پاس چلے گئے۔ سلام دعا کے بعد بتایا کہ یہ عبدالمالک مجاہد ہیں، دارالسلام کے مدیر ہیں۔انہوں نے میرا راستہ کھول دیا۔
ریاض الجنہ جس کے بارے میں اللہ کے رسولنے ارشاد فرمایا ہے :
} مَا بَیْنَ بَیْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَۃٌ مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّۃِ{۔
’’ وہ مقام جو میرے گھر اور منبر کے درمیان ہے وہ جنت کے باغیچوں میں ایک باغیچہ ہے۔‘‘ 
یہ حدیث بخاری اور مسلم شریف میں ہے۔ اس حدیث کے کئی معانی اور مفاہیم بیان کیے گئے ہیں۔ امام نوویؒ فرماتے ہیں: 
’’یہ جگہ اسی طرح قیامت کے روز جنت میں منتقل کر دی جائیگی۔ ‘‘
دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اس مقام پر عبادت کرنا جنت میں پہنچا دیتا ہے۔ 
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
’’ اس مقام پر انسان کو رحمت و سعادت حاصل ہوتی ہے۔ ‘‘
یہاں پر قرآنی حلقات کا قیام ہویا حلقاتِ حدیث قائم ہوں تو ان کا اپنا مزا ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ امام دارالہجرہ مالک بن انسؒ کس مقام پر بیٹھ کر اپنے شاگردوں کو حدیث پڑھایا کرتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ اسی ریاض الجنہ میں بیٹھتے ہوں۔ سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ وہ کبھی کبھار اپنے شاگردوں سے مخاطب ہو کر اللہ کے رسول کی قبر مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے تاریخی الفاظ دہراتے: 
} کُلُّ أَحَدٍ یُؤْخَذُ مِنْ قَوْلِہٖ وَیُرَدُّ إِلَّا صَاحِبَ ھٰذَا الْقَبْرِ{۔
 ’’کسی بھی شخصیت کے قول کو قبول بھی کیا جا سکتا ہے اور اسے رد بھی کیا جا سکتا ہے۔ ہاں یہ جو صاحب قبررسول اللہ ہیں اُن کی کسی بات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ …اس لئے کہ ہر ایک سے خطا کا احتمال ہے مگر اللہ کے رسول  معصوم عن الخطا ہیں۔
ریاض الجنۃ میں خاصا رش تھا۔ مجھے آج سے35,30 سال پرانے دن یاد آ گئے۔ اُس زمانے میں رش تو ہوتا تھا‘ مگر ریاض الجنۃ میں بڑے آرام سے جگہ مل جاتی تھی۔ ابھی شاہ فہد بن عبدالعزیز آل سعود ؒ  والی توسیع نہیں ہوئی تھی۔ خواتین بھی 10بجے کے بعد ریاض الجنۃ آ کر نوافل پڑھ لیتی تھیں۔ ان کیلئے درمیان میں لکڑی کے بنچ رکھ کر جگہ بنا دی جاتی تھی۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسلام کمزور ہے۔ لوگ دین میں کم دلچسپی لیتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ ایسا تو نہیں بلکہ اسلام بتدریج طاقتور ہو رہا ہے۔ ہر جگہ، ہر ملک میں پھیل رہا ہے۔ لوگ اسلام قبول کر رہے ہیں۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ شریف آنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ میرے اندازے کے مطابق کوئی12 ملین افراد ہر سال عمرہ کے لئے اندرون وبیرون ملک سے حرمین شریفین میں آتے ہیں۔ ہر چند کہ اب مکہ  مکرمہ اور مدینہ شریف کے ارد گرد درجنوں کے حساب سے فائیو اسٹار ہوٹل بن چکے ہیں، لیکن جب بھی پوچھو، معلوم کرو تو کمرے ملتے ہی نہیں ۔ لوگ پہلے اکیلے آتے تھے، اب پوری پوری فیملی اور چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ حرمین شریفین کی زیارت کیلئے آتے ہیں۔ خلیجی ممالک سے بڑے بڑے امرا ء اور سرمایہ دار طبقہ مکہ مکرمہ اور مدینہ شریف میں آکر10,8 روز تک قیام پذیر رہتے ہیں۔ ٹھیک ہے وہ سیر بھی کرتے ہیں، مگر ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ کے دربار میں آہیں بھی بھرتے ہیں۔
پاکستانیوں کی شان نرالی ہے۔ اس سال رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ اعتکاف بیٹھے ۔ میرے اپنے محتاط اندازے کے مطابق ان میں 70 فی صد پاکستانی تھے۔ یادش بخیر ہمارے حالیہ وزیر داخلہ جناب احسن اقبال بھی مسجد نبوی شریف میں ہر سال10 دن کا اعتکاف کرتے ہیں۔ برادرم انجینیئر امیر ضمیر احمد خان اس مرتبہ حرم میں مجھے ان سے ملوانے لے گئے۔ میرا خیال تھا کہ وفاقی وزیر ہیں کوئی خاص جگہ مقرر ہو گی۔ کوئی سیکیورٹی کوئی کھلی جگہ ‘ مگر جب ملاقات ہوئی تو وہ عام مسلمانوں کے ساتھ اعتکاف میں تھے تو بے اختیار زبان سے نکلا: بلاشبہ یہاں امیر فقیر سب یکساں اور برابر ہیں۔ احسن اقبال عام معتمرین کے ساتھ ایک ستون کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھے ہیں ۔ ان کے سامنے ایک صاحب چادر لے کر سوئے ہوئے تھے۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ جواب ملا: یہ ناروال کے ایم پی اے صاحب ہیں۔ اس لئے صاحبو! آج کی دنیا میں اسلام کے متعلق میں تو بڑا پرُامید ہوں۔ میں تو آج کے حالات کا 40 سال پہلے کے دور سے مقابلہ کرتا ہوں تو بے اختیار کہہ اٹھتا ہوں کہ اسلام غالب ہونے کے لئے آیا ہے، مغلوب ہونے کے لئے نہیں آیا۔ آج سے 50 سال قبل جب گاؤں کا چوہدری فجر یا عشاء کی نماز پڑھنے مسجد میں آ جاتا تو ہر طرف چرچا ہو جاتا کہ نمبردار نمازی ہے۔
ریاض الجنۃ میں نوافل شروع کیے تو عجیب سا سرور اور مزہ آ گیا۔ ایسا لگا کہ پچھلے گناہوں کی معافی مل گئی ہے۔ آج میں 2 دعائیں کثرت کے ساتھ کر رہا تھا :ایک تو اپنے بیٹے محمد کے دارالحدیث مکہ میں داخلے کے لئے اور دوسری محترم جناب علی محمد ابو تراب صاحب کی بازیابی کے لئے… سوچا کونسی دعا پہلے مانگوں؟ زبان ساتھ نہیں دے رہی تھی ۔کبھی محمد کے لئے اور کبھی ابو تراب صاحب کے لئے دل کی گہرائیوںسے دعائیںنکل رہی تھیں۔ا س کے علاوہ ان کے لئے بھی جنہوں نے دعاؤں کی درخواست کی تھی اور ان کے لئے بھی جو اس مقام پر خواہش رکھتے ہیں کہ ان کے لئے دعا کی جائے اور پاکستان کے عزت  و  وقار کے لئے، اپنے کنبہ قبیلہ کے لئے ‘ دوست احباب کے لئے ۔میں سن رہا ہوں، پولیس والے آپس میں گفتگو کر رہے ہیں کہ یہ دارالسلام کا مدیر ہے۔ دوسرا بولا: ہاں دارالسلام معروف ہے۔ میں نے کہا: اللہ تیرا شکر ہے کہ ان مقدس مقامات پر بھی دارالسلام کا ذکر ہے۔
میں نے نوافل ادا کیے۔ ابو تراب نورپوری صاحب کا بڑا پن ہے کہ انہوں نے آگے پڑے میرے شوز والا تھیلا اٹھا لیا۔ میں نے آگے بڑھ کر تھیلا چھیننے کی کوشش کی، مگر ان کی گرفت مجھ سے زیادہ سخت تھی۔ کہنے لگے:آپ اپنے سامان اور جوتوں کی فکر سے آزاد ہو کر آرام سے درود و سلام پیش کریں۔ شرطوں نے لوگوں کو قدرے دور رکھنے کے لئے انسانی باڑ بنا رکھی تھی۔ مدینہ یونیورسٹی کا طالب علم جو اس وقت حجرے پر ڈیوٹی دے رہا تھا، اس نے آگے بڑھ کر ہاتھ تھام لیا۔
اللہ کے رسولنے امت کو سلام کا طریقہ سکھایا ہے جو ہم ہر نماز کے دوران التحیات میں پڑھتے ہیں:
}السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّھَا النَّبِيُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ{۔
 ’’اے نبی اکرم( )!آپ( ) پر سلام ہو، اللہ کی رحمت اور اس کی برکات ہوں۔‘‘
یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے: 
}السَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ{۔
اس کے بعد کچھ مزید دعائیہ کلمات استعمال کرنا چاہیں تو کوئی حرج نہیں، مثلاً: 
} صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْکَ وَعَلٰی آلِکَ وَأَصْحَابِکَ، وَجَزَاکَ اللّٰہُ عَنْ أُمَّتِکَ خَیْرًا، اللّٰھُمَّ آتِہِ الْوَسِیلَۃَ وَالْفَضِیلَۃَ وَابْعَثْہُ الْمَقَامَ الْمَحْمودَ الَّذِي وَعَدْتَہُ {۔
تو ان الفاظ کو کہنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ الفاظ اللہ کے رسول کی قبر مبارک کے آگے کھڑے ہو کر کہیں یا قبر کے سامنے چلتے ہوئے ادا کرلیں۔
(جاری ہے)

شیئر: