Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زندگی ہارتے اتنے قریب سے کبھی نہیں دیکھا تھا

میری بہن شوہر کے ظلم کی بھینٹ چڑ ھ گئی ، وہ دو سری بیوی کے ساتھ عیش کر رہا ہے
تسنیم امجد۔ریا ض
زند گی میں کچھ باتیں ،کچھ یادیںاس طرح دل پر نقش ہو جاتی ہیںکہ انہیںبھلانا بھی چاہیںتو بھلا نہیں سکتے۔را بعہ نے نہا یت اداس لہجے میں روداد شروع کی ۔میری بہت ہی پیاری بہن نا ئیلہ کا چہرہ آج بھی مجھے اپنے سامنے مسکراتا دکھائی دیتا ہے ۔مجھے وہ رات نہیں بھو لتی جب وہ درد سے کراہ رہی تھی اور بار بار مجھے کچھ پڑ ھنے کو کہہ رہی تھی ۔میں نے معوذتین بار بار پڑ ھیں ۔اسپتال کی نرس بھی نا ئٹ شفٹ پر آ نے کے بعد را ﺅ نڈ لیکر جا چکی تھی ۔سا تھ والے کمرے میںخاتون رات بھر کی نگرانی کے لئے اپنے بچے کے پاس ہی موجود تھی۔میں نے انہیں کہا کہ ذرا نا ئیلہ کا خیال رکھیں تا کہ میں گھر سے یخنی بنا لا ﺅ ں۔ انہو ں نے ہامی بھر لی اور میں جلدی سے وارڈ پھاندتی گیٹ کی جا نب مڑی ۔رات کا ایک بجا تھا ۔جلدی جلدی کرتے ہوئے بھی اذان کا وقت ہو گیا ۔یخنی کا تھر مس سنبھالے میں ہانپتی پہنچی تو وہ خاتون دروازے میں میری منتظر تھیں ۔کہنے لگیں ،یہ تمہاری منتظر ہے ۔میں جلدی سے بیڈ کی جانب لپکی ۔وہ نیم واآ نکھو ں سے مجھے دیکھ رہی تھی ۔میںنے گرم گرم یخنی کا چمچ اس کے ہو نٹو ں کو لگا یا تو گلے سے خر خر کی آواز آنے لگی ۔پھر اس نے آہستہ سے میرا نام لیااور ایک ہچکی لی ۔میری سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ڈاکٹر کو بلانے کے لئے پلٹی تو وہ خاتون بو لیں کہ مت جا ﺅ ۔اس کی آنکھیں بند کر دو ۔میں سمجھ گئی تھی کہ یہ عا لمِ نزع میں تھی ۔میں نے اس سے پہلے اتنے قریب سے کسی کو زندگی ہارتے نہیں دیکھا تھا ۔میں نے اپنی اتنی پیا ری بہن کو یو ں رخصت ہو تے دیکھا تو یقین نہیں آ رہا تھا ۔جمعہ کا دن تھا۔ سب ڈاکٹروں کی چھٹی تھی۔نا ئیلہ کو نرس نے اتنی جلدی لپیٹا اور ہم مردہ خانے کی جانب اسٹریچر کے پیچھے پیچھے چل پڑے ۔
مزید پڑھئے:وہ سوچ رہی تھی، ہماری خود غرضی کب ختم ہوگی
مردہ خانے کے اندر داخل ہو کر ایک نئی دنیا دیکھی۔دائیں بائیں فرش پر اسٹریچر رکھے تھے جن پر بے جان لاشے اپنو ں کے منتظر پڑے تھے ۔انچارج نے بتایا کہ فریزر بھر چکے ہیں، اس لئے ان کے لئے ابھی جگہ نہیں ۔آپ انہیں بھی یہا ں چھو ڑ جائیں۔آج تو چھٹی ہے، کل پیپر ورک مکمل ہو نے کے بعد ہی ان کی باری آ ئے گی ۔یہ سن کر میں تڑپ اٹھی اور چلائی کہ نہیں نہیں، میں انہیں یہا ں اکیلا نہیں چھوڑوں گی ۔میںما حول کے خوف اور بہن کی محبت میں بالکل گنگ ہوگئی تھی ،کو ئی فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی۔اتنے میں دروازہ کھٹکا اور ایک خاتون اندر آئی۔ کہنے لگی، میں اپنا پرس بھول گئی تھی۔وہ اس مغسلہ کی سپروا ئزر تھی ۔میںنے اسے لجا جت سے کہا کہ یہ کل تک یہا ں کیسے اکیلی رہے گی؟وہ مسکرائی اور بو لی اگر پیپر ورک تیار ہے تو آﺅ میرے ساتھ نہلانے میں مدد کرو ۔اسی اثناءمیں با ہر سے اطلاع ملی کہ کسی نیک دل نے چھٹی کے باوجودکاغذ ی کارروائی مکمل کر دی ہے ۔یقین کیجئے یہ سب اللہ کریم کی مدد تھی ۔اس ذاتِ باری تعا لیٰ کی ر حمت سا تھ ہو تو اس طرح معجز ے ہو تے ہیں کہ ہم دنگ رہ جاتے ہیں ۔خیر باقی کا سارا کام اتنی جلدی ہوا کہ عصر کی نماز سے قبل ہم نے میت وداع کر دی ۔اس دوران میرے ا حساسات کیا تھے،یہ ہر بہن محسوس کر سکتی ہے ۔اب تو میرے پاس سوائے الفا ظ کے کچھ نہیں رہا:
تیری ہر صبح سے محبت کی
تیری ہر شام سے محبت کی
نام اپنا بھلا دیا میں نے
یوں ترے نام سے محبت کی
تیری میری رفاقتوں کے امیں
ہر در و بام سے محبت کی
مزید پڑھئے:استعارے کا حقیقت میں بدل جانا ہے یہ
را بعہ اب ہچکیا ں لے کر رو نے لگی ۔کہنے لگی ،یہ تو کہا نی کا ایک ر خ ہے ۔دوسرا اور بھی د کھی ہے۔نا ئیلہ کو صرف 34برس کی عمر میں قبر میں پہنچانے والا اور کو ئی نہیں تھا ،اس کا شو ہر نعیم تھا ۔اس نے ماں کی موت کے بعد اس اکیلی لڑ کی سے دولت ہتھیا نے کے لئے اپنی محبت کا یقین دلایا ۔ہم سب اپنی اپنی ز ند گیو ں میں مصروف تھے ۔بھا ئی ملک سے باہر تھے ۔وہ اسی کی کالو نی میں2 بلاک چھو ڑ کر رہتا تھا۔ اس کی 9 بہنیںتھیں اور 2بھا ئی تھے وہ سب اپنے والدین کے ہمراہ رہتے تھے۔ہم اسے جا نتے نہ تھے اس لئے بہن سے چھا ن بین کرنے کی مہلت مانگی لیکن وہ بضد تھی کہ ما ں کے بعد جب میں اکیلی تھی تو اس کے تمام گھر وا لوں نے میرا بہت خیال رکھا۔وہ اسے بہت چا ہنے لگی تھی۔شادی کے بعد نعیم کا ا صل روپ سا منے آ گیا ۔اس نے گھر اپنے نام لکھوایا ۔بینک بیلنس اور ز یورات سب بٹو رلئے پھر با ہر بلانے کی ضد شروع کر دی ۔اس کی ضد بہن کی محبت کے ہا تھو ںمجبو ر ہو کر پو ری کی ۔اس شخص کے پر پر زے بھی نکلنے شروع ہوگ ئے ۔وہ نا ئیلہ کو گھر میں بند کر کے سارا دن آوارہ پھرتا۔اس کی تو لا ٹری نکل آئی تھی ۔نائیلہ کئی کئی دن بھو کی پیاسی اس کی راہ دیکھتی رہتی ۔شو ہر کی عز ت کا بھرم رکھنے کی خا طر کسی سے کچھ نہ کہتی ۔وہ شو ہر کے روپ میں ایک بھیڑ یا ثا بت ہوا ۔وہ ڈرتے ہو ئے کسی بھا ئی کوبھی کچھ نہیں بتاتی تھی کہ نا را ض ہو نگے ۔نعیم ایک گھٹیا انسان تھا ۔اسے اپنی کزن سے محبت تھی۔اب پیسہ آ نے کے بعد وہ اسے اپنی زند گی میں لا نا چا ہتا تھاچنانچہ اس نے نائیلہ کو ز ندہ در گور کر نے کے حربے اختیار کرنا شروع کر دیئے جس میں وہ کا میاب ہوا اورنا ئیلہ کے گردے ناکارہ ہو نے کی خبر ہم تک پہنچ گئی۔ 
اس کا ڈائلیسز ہو رہا تھا۔اسپتال ودیگر تمام اخرا جات میری ذمہ داری بن گئے ۔میں جا نتی تھی کہ اگرمیں نے یہ سب نہ کیا تو وہ بغیر علاج کے پڑی رہے گی ۔اس کی بھی خواہش یہی تھی کہ را ستے کا پتھر جلد سے جلد ہٹ جا ئے ۔اس کی زندگی کی سختیا ں کیا کیا بتاﺅ ں،ہمت نہیںہے مجھ میں ۔
میری بہن معا شرتی اور سما جی پر دے رکھتی ہو ئی ظلم کی بھینٹ چڑ ھ گئی ۔آج نعیم اپنی دو سری بیوی کے ساتھ عیش سے زندگی بسر کر رہا ہے ۔اس نے نا ئیلہ کے آ نسو ﺅ ں اور آ ہو ں کا ذرا بھی خیال نہیں رکھا ۔اس کی دولت ہتھیا کر اس نے اپنی بہنو ں کی شادیاں کیں۔ والدین بھی اسی جیسی فطرت کے مالک تھے ۔انہیں بھی ترس نہ آیا۔
را بعہ پھر ہچکیا ں لینے لگی اور کہنے لگی کہ میری یہ التجا سب تک پہنچا دیں کہ کبھی بھی بغیرتحقیق کئے رشتے نہ کریں۔لڑ کیا ں کم عمری میں ناسمجھ ہو تی ہیں ۔انہیں ان حا لات سے دور رکھیں اور انہیں اتنی چھوٹ نہ دیں کہ وہ اپنی زند گی کا فیصلہ خود کرنے بیٹھ جائیں ورنہ انہیں کسی کو کچھ بتا ئے بغیر ساری زندگی آ نسو پینے پڑتے ہیں۔باپ کی پگڑ ی کی لاج ان معصو مو ں کو اپنی زند گی سے زیا دہ رہتی ہے ۔
 

شیئر: