Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پارلیمنٹ کی تضحیک ، عوام کی توہین

***سید شکیل احمد***
          سید  مودودی رحمہ اللہ ؒ نے کہا تھا کہ اگر پاکستان میں منتخب ادارے اور منتخب حکومت 2مرتبہ اپنی مد ت پوری کرلیں تو  جمہوریت کو استحکا م مل جائے گا۔ یہ عام فہم بات تھی مگر اصل حاکم نے اس میں اپنے مطلب کی بات ڈھو نڈنکالی ،تب سے پا کستان میں تسلسل کے ساتھ2 مرتبہ کسی منتخب حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع فراہم نہ ہو نے دیا گیا۔ منتخب پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ کو اجاڑنے والی قوتوں کے درمیا ن پنجہ آزمائی جا ری ہے اور اب بالکل نئے طر ز کا دھرنا لگا ہے جس میں امپائر کی انگلی پر کھڑا رہنما   بھی اس طر ح کی شرکت ہے کہ وہ کہتا ہے کہ ملک کی سابق بر سراقتدار پارٹی کے سربراہ کے ساتھ وہ   نمو دار نہ ہو ں گے۔ اس کی وجہ کیا ہے ؟کیا بدنا می صرف لگ کر بیٹھنے سے ہوتی ہے یا ایک ساتھ محفل سجا نے کو نیک نا می کہا جاتا ہے؟آج نیا زی صاحب اسی کے رقیب ہیں جس کے بارے میںانھو ں نے کہا تھا کہ پا کستان کے سب سے بڑے 2 چور ہیں ایک نو از شریف اور دوسرے آصف زرداری۔ یہ دعویٰ کہا ں تک درست ہے اس بارے میں عمر ان نیا زی ہی جانتے ہو ں گے تاہم بچپن سے یہ ضرب المثل سنتے آئے ہیں کہ چور کا بھا ئی چور ہوتا ہے لیکن عمر ان کے دعوے کے مطا بق ایک بھائی ان کے ساتھ منج پر ہے، دوسرے کے خلا ف ہے اور اس وقت کپتان کا ساتھی بنا ہو اہے۔ یہ ضرب المثل سنتے تھے کی چور کا ساتھی گرہ کٹ اب کیا بات سچ ہے اللہ ہی بہتر جا نتا ہے ۔
            زینب بی بی کے ساتھ سفاکانہ سلوک پر ایک تلا طم بپا ہو ا تھا اور لا ہو ر کا دھرنا اسی کی کڑی تھی کہ معصوم زینب کے قاتل زندان کی بجا ئے زندہ پھر رہے ہیں لیکن لا ہو ر ما ل رو ڈ کا شو زینب بی بی کو بھلا بیٹھا۔ اب زینب بی بی کی روح کو کون انصاف دلا ئے گا یہ جو اب تحریک انصاف والے ہی دے سکتے ہیں یا طاہر القادری بتا سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سانحہ ما ڈل ٹاؤن کے متاثرین کے ساتھ ہی سانحہ زینب بی بی کا بدلہ لیا جا ئے گا مگر وہ ڈیر ہ اسماعیل خان کی کر ما ں بی بی کو بھول گئے اور نہ ہی ان کو مر دان کی عاصمہ بی بی یا د رہی۔سلا م ہے روبینہ خا لد ہ کہ وہ واحد سیا ست د ان اور وہ بھی سیا ست دان خاتو ن ہیں کہ جو انصاف کی آواز بن کر عاصمہ بی بی کے گھر گئیں اور اس متاثرہ خاندا ن کو تسلی تشفی دلائی ۔انصاف کا تقا ضا تو یہ تھا کہ عمر ان خان کر ما ں بی بی اور عاصمہ بی بی کے سانحات پر اپنی صوبائی حکومت سے مستعفی ہو نے کا کہتے۔ اگر زینب بی بی کا سانحہ پنجا ب کے حکمر انو ں کی نااہلی ہے جو یقیناہے بھی تو کر اما ں بی بی اور عاصمہ بی بی کے سانحا ت کی ذمہ داری کس پر ہے۔ لا ہو ر دھر نا والو ں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عاصمہ بی بی اور کرما ں بی بی کے لیے بھی اسی شد ومد سے آواذ بلند کر یں ورنہ یہی گما ن کیا جا ئے گا کہ اس دھرنے کی بھی پشت بانی کوئی امپائر ہی کر رہا ہے ۔
            لاہو ر کے دھر نے کو حکومت کیلئے ایک بڑ ا خطرہ قرا ر دیا جا رہا تھا اور کہا جا رہا تھا کہ اب حکومت سے استعفے ہی لے کر واپس ہونگے مگر وہا ں تو یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ جو استعفیٰ لینے آئے تھے وہ خود استعفیٰ دے رہے ہیں ۔شیخ رشید نے لا ل حویلی سے باہر آتے ہیں جو ش خطا بت میں آکر لالو لا ل جھکڑ یو ں چلا یا کہ استعفیٰ کا اعلا ن کر دیا ۔اگر یہ کر نا ہی تھا تو راولپنڈی سے کوچ کر نے سے پہلے اسلا م آباد کی یا ترا کر آتے اور قومی اسمبلی کے اسپیکر کی خدمت میں استعفیٰ بنفس نفیس پیش کر کے ہا تھ لا ل پیلے کر آتے۔ بہر حال لا ل حویلی کے لا لو ہیں۔ ایسے مواقع پر ہر مرتبہ عمر ان خان کو ایک نئی آزمائش سے دوچار کر دیتے ہیں۔ اس مر تبہ بھی انھو ں نے مستعفی ہو نے کا اعلا ن کرکے عمر ان خان کو کڑی آزمائش میں ڈال دیا ہے ۔مختصر یہ کسی نے بھی زینب بی بی کے لیے انصاف کا نا م نہیں لیا کیونکہ اگر وہ ایسا کرتے تو ان کو اسماء بی بی کے انصاف کے لیے بھی دو بول بولنا پڑ جا تے ۔ جہا ں تک پا رلیمنٹ  پر تنقیدکا تعلق ہے تو یہ عوام کی توہین کے متر ادف ہے کیونکہ پا رلیمنٹ کو نہ تو پر ویز مشرف نے منتخب کر نے کا شرف بخشا ہے اور نہ ہی کسی امپائر کی مر ہون منت ہے یہ عوام کا منتخب کر دہ ادارہ ہے۔ دوسرے الفا ظ میں پارلیمنٹ عوام کا عکس ہے ۔ اس کے ایو ان میں بیٹھنے والے اپنی نما ئندگی نہیں کر تے بلکہ عوام کی نما ئند گی کرتے ہیں۔ اس کی چار دیو اری میں جو فیصلے ہو تے ہیں وہ عوام کے فیصلے ہی ہو تے ہیں کیو نکہ عوام نے ہی ان کو منتخب کیا ہے کہ وہ یہا ں مل بیٹھ کر فیصلے کر یں۔ جس طرح عدالت کے بارے میں توہین آمیز الفا ظ استعما ل کرنا توہین عدالت ہے اسی طر ح پا رلیمنٹ کے بارے میں تضحیک آمیز الفاظ کا استعمال عوام کی توہین کے متر ادف ہے ۔ یہ عوام ہی ہیںجنہوں نے اپنے نما ئندے یہا ں بھیجے ہیں جن میں جا وید خاقان عباسی ، شیخ رشید ، خورشید شاہ ، عمر ان خان ، یہ سب عوام کی طر ف سے بھیجے ہو ئے ہیں چنا نچہ پو ری پا رلیمنٹ کی تضحیک کرنا عوام کی توہین ہی ہے جس سے اجتنا ب کر نے کی ضر ورت ہے ۔
            دھرنا والوں سے پنجا ب کے وزیر اعلیٰ نے بڑ ا چبھتا ہو ا سوال کیا ہے ۔شہباز شریف کا کہنا ہے کہ جس طر ح زینب قوم کی بیٹی ہے اسی طر ح مر دان میں زیا دتی کے بعد قتل ہو نے والی اسماء بھی قوم کی بیٹی ہے ۔ مال رو ڈ پر دھر نا دینے والے بتائیں کہ کیا ان کے آنسو اور دعائیں مردان کی بیٹی کے لیے بھی ہیں۔ کیا اس بیٹی کیلئے بھی مال روڈ پر دھر نا دینے والوں کے لیے وہی ہمد ردی ہے اور کیا وہ اسے انصاف دلا نے کے لیے بھی آواذ اٹھائیں گے ۔یہ لو گ اسما ء کے قتل پر کیو ں خامو ش ہیں ۔شہبازشریف نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ میر مرتضیٰ بھٹو کا قتل اس وقت ہو ا تھا جب ان کی بہن بینظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں۔ اس وقت احتجا ج اور دھر نے کیو ں نہیں کئے گئے ۔ مر تضیٰ بھٹو کے بچے آج بھی انصاف کے طلب گار ہیں ۔بات تو سچ ہے تاہم یہ بھی حیر ت کی بات ہے کہ جب حکومت کو آئینی طور پر ختم ہو نے میںصر ف 4،5   ما ہ ہی رہ گئے ہیں تو پھر ایسے میں حکومت سے مستعفی ہو نے کا مطالبہ اتنے بڑے پیمانے پر کرنے کا مطلب؟ ساڑھے4 سال گزار دئیے اب استعفیٰ کی سوجھ بوجھ باعث حیر ت ہے۔ پس پر دہ کیا کا ر فرما ہے اس کا ذکر بند ہو نٹو ں سے حکمر ان کر تے تو ہیں مگر کھل کر وہ بھی نہیں بولتے ۔ 
 

شیئر: