Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ جن کی دعائیں جلد قبول ہوتی ہیں!

انسان کی زندگی میں ایسے مواقع بھی آتے ہیں کہ وہ بے بس ہوجاتا ہے ، یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب اللہ کریم اس کی دعا قبول فرماتا ہے
مولانا محمد الیاس گھمن ۔سرگودھا
اللہ تعالیٰ نے دنیا کو امتحان کی اور آخرت کو جزاء و سزا کی جگہ بنایا ہے ۔ یہاں آزمائش کے لئے خوشیاں بھی عطاء کی ہیںکہ کون ان کو میری نعمت اور احسان سمجھ کر شکر ادا کرتا ہے اور غم بھی پیدا فرمائے ہیںکہ کون ان کو اپنی غلطی سمجھ کر میری طرف رجوع کرتا ہے؟ انسان کو دنیا میں یہ دونوں چیزیں نصیب ہوتی ہیں لیکن افسوس صد افسوس کہ صرف اس کو غم ہی یاد رہتے ہیں ۔پریشانی کے آزمائشی لمحات میں اپنے رب سے گلے شکوے، شکایتیں اور ناشکری ہی کرتا ہے ۔اُس ذات کی طرف سے ملنے والی خوشیوں اور نعمتوں کو سرے سے بھلا دیتا ہے بلکہ ان کو اللہ کا محض فضل ، احسان اور کرم سمجھنے کے بجائے اپنا ’’کمال ‘‘سمجھتا ہے۔ اے کاش! ہمیں اپنی اِن دونوں غلطیوں کا احساس ہو سکے، خوشیوں کو اس کی عطاء سمجھیں اور شکر ادا کریں ، مصائب اور پریشانیوں کو بھی اللہ کا انعام سمجھیں کیونکہ اللہ تعالیٰ جس مسلمان کو دنیاوی آزمائشوں میں مبتلا کرتے ہیں تو اس کی دعا ؤں کو اپنی بارگاہ میں قبولیت سے نوازتے ہیں، یہ اس ذات کا کرم ،بے پناہ کرم اور محض کرم ہی ہے۔ 
مزید پڑھیں:دعا عبادت کا جوہر
اصل بات یہ ہے کہ ہمارے دل میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ ہم اللہ کی مخلوق ،اس پر ایمان لانے اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں۔ وہ ذات ہم سے پیار کرتی ہے ،دنیا میں خوشیاں عطاء کر کے آخرت کی حقیقی خوشیوں کا احساس دلاتی ہے کہ دیکھو دنیا کی خوشیاں عارضی ہیں، ان کے ختم ہونے کا دھڑکا سا لگا رہتا ہے، چھن جانے کا خوف دامن گیر رہتا ہے جبکہ آخرت کی خوشیاں مستقل ہیں، ان کے ختم ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ کوئی چھین نہیں سکتا ۔ اسی طرح وہ ذات دنیاوی پریشانیاں دیکر آخرت کی حقیقی پریشانیوں سے نجات حاصل کرنے کا موقع دیتی ہے کہ دیکھو تم دنیا کی پریشانیوں کو جو وقتی اور عارضی ہیں ان کو برداشت نہیں کرسکتے تو آخرت کی لمبی پریشانیاں کیسے برداشت کر سکو گے؟اللہ تعالیٰ ہمیں جھنجوڑنے اور غفلت سے دور کرنے کیلئے تنبیہ کے طور پر چند پریشانیوں سے دوچار کرتے ہیں تاکہ یہ بندے آخرت کی بڑی اور لمبی پریشانیوں سے بچنے کی وہ تدابیر اختیار کر سکیں جو میرے احکامات اور میرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں موجود ہیں بلکہ قرآن و سنت میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عین اس وقت بھی جب کسی مسلمان پر مصائب و مشکلات نازل ہو رہے ہوتے ہیں، اس وقت بھی وہ اللہ کے کرم کے سایہ میں ہوتا ہے۔ 
مزید پڑھیں:دعا کے معانی اور اہمیت
اگر وہ کسی گناہ کی وجہ سے اس پر نازل ہو رہی ہیں تو سنبھلنے کا موقع مل رہا ہوتا ہے بلکہ اس شخص کو اس وقت اللہ تعالیٰ ایک بہت بڑی نعمت عطاء فرماتے ہیں کہ ایسے شخص کی دعا ء کو قبول فرماتے ہیں۔ذیل میں ہم چند ایسے اشخاص کا تذکرہ کرتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی پریشانی سے دوچار کر کے ان کی دعاؤں کو قبولیت کا شرف عطاء فرماتے ہیں۔
بے بس کی دعاء :
انسان کی زندگی میں ایسے مواقع بھی آتے ہیں کہ وہ بالکل بے بس ہوجاتا ہے ۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب اللہ کریم اس کی دعاء کو قبول فرماتے ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ جس وقت اللہ تعالیٰ انسان کو نوازنا چاہتا ہے عین اسی وقت یہ اس ذات کے گلے شکوے شروع کر دیتا ہے اس لئے بھرپور کوشش کرنی چاہیے کہ ایسے وقت کو اللہ تعالیٰ کی ناشکری میں ضائع کرنے کے بجائے دعا ئیں مانگنے میں خرچ کیا جائے ۔ قرآن کریم میں ہے :
’’(بھلا اللہ کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے ؟جو) بے کس و بے بس انسان کی دعاء کو قبول اور اس سے حالات کی سختی کو دور فرماتا ہے۔‘‘ (النمل  62)۔
مزید پڑھیں:اولاد کیلئے دعا ، صالحین کا طریقہ
  مریض کی دعاء:
انسان کی زندگی میں کبھی صحت غالب رہتی ہے اور کبھی مرض غلبہ پا لیتا ہے لیکن اللہ کا کرم دیکھئے کہ جب انسان کسی مرض میں مبتلا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعاء کو قبول فرماتا ہے۔ مرض اس کے گناہوں کا کفارہ اور بلندیٔ درجات کا ذریعہ بن جاتا ہے لیکن افسوس اس موقع پر بھی انسان اپنے اللہ کو بھول جاتا ہے اور جس زبان کو دعا ء و مناجات کی عطر بیزیوں سے مہکنا چاہیے تھا وہی زبان ناشکری کی گندگی میں ملوث ہو جاتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اللہ سے صحت کی دعاء مانگنی چاہیے لیکن اگر مرض آ بھی جائے تو اس بات کا خیال کرنا چاہیے کہ ایسے انسان کی دعا ء اللہ جلد قبول فرماتے ہیں۔ علاج کے ساتھ ساتھ دعاؤں کا بھرپور اہتمام کرنا چاہیے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ مریض جب تک حالت مرض میں رہتا ہے تو اس کی دعاء رد نہیں کی جاتی۔‘‘ (شعب الایمان للبیہقی، فصل فی ذکر ما فی الاوجاع والامراض)۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ مریضوں کی عیادت کیا کرو اور ان سے اپنے لئے دعاء کی درخواست کیا کرو کیونکہ مریض کی دعاء قبول ہوتی ہے۔ ‘‘(الدعاء للطبرانی،باب ماجاء فی دعاء المریض لعوادہ)۔
فائدہ:
اس سے معلوم ہوا کہ مریض کو اپنے لئے بھی دعاء کرنی چاہیے اور عیادت کیلئے آنے والوں کو بھی مریض سے دعا ء کی درخواست کرنی چاہیے۔ 
مزید پڑھیں:قنوتِ نازلہ ، مصیبت کے وقت کی دعا
مسافر کی دعاء :
انسان کا جسم راحت کا خواہش مند ہوتا ہے لیکن حالت سفر میں اسے صعوبت و پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اللہ کریم کا کرم دیکھئے کہ انسان پر سفر کی ہلکی سے پریشانی آتی ہے تو اللہ اس پر اپنا کرم یہ فرماتے ہیں کہ اس کی دعاء کو جلد قبول فرما لیتے ہیں۔ ہم لوگ آئے دن سفر کرتے ہیں ۔ افسوس کہ سفر میں غیر شرعی کاموں میں لگے رہتے ہیں۔ فلمیں ، ڈرامے ، گانے باجے دیکھنا اور سننا ،موبائل سے کھیلتے رہنا ، فضول قسم کی باتوں میں لگے رہنا بالخصوص خواتین جب سفر کرتی ہیں تو دوسروں کے گلے شکوے کرتی رہتی ہیں حالانکہ یہ وقت اللہ تعالیٰ سے مانگنے کا ہوتا ہے۔ 
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
33دعائیں قبول ہوتی ہیں(ان میں سے ایک) مسافر کی دعا ء ہے۔‘‘(جامع الترمذی، باب ما ذکر فی دعوۃ المسافر)۔
مزید پڑھیں:قرآن مجید کی عظیم تر سورت ، الفاتحہ
باپ کی دعاء:
اولاد اللہ کی نعمت ہے۔ اللہ جسے یہ نعمت عطاء فرماتا ہے تو اس کی ذمہ داریاں بھی بڑھا دیتا ہے۔ اولاد کی پرورش، رہائش، خوراک، تعلیم، تربیت اخلاق، ادب و احترام اور دینی احکامات پر عمل کی پابندی کرانا یہ والدین پر اولاد کے بنیادی حقوق ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ ان حقوق کی ادائیگی میں بسا اوقات انسان کو پریشانیاں بھی لاحق ہوتی ہیں، ایسے وقت میں ایک باپ کی کیفیت کیا ہوتی ہے؟ لیکن اللہ کریم کا کرم دیکھئے، اولاد کی نعمت بھی عطا فرماتے ہیں۔ ان کے حقوق کی ادائیگی کیلئے کوئی پریشانی لاحق ہو تو اللہ تعالیٰ اولاد کے حق میں دعاء کو جلد قبول فرماتے ہیں۔ 
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
’’3 طرح کے لوگوں کی دعائیں رد نہیں کی جاتیں(ان میں سے ایک) والد کی دعا ء اپنی اولاد کے لئے ۔‘‘(جامع الترمذی، باب ما ذکر فی دعوۃ المسافر)۔
انصاف کرنے  والے حاکم کی دعاء:
جس کو کسی قوم پر حاکم بنا دیا جائے ، تو اس قوم کو انصاف فراہم کرنا حاکم کے ذمہ ہوتا ہے ۔معاشرے میں جرائم کی کثرت اور مجرموں کا طاقتور ہونا ایک زمینی حقیقت ہے۔ ایسے میں انصاف کی فراہمی سب سے مشکل کام ہوتا ہے لیکن جس شخص کو اللہ تعالیٰ اس مشکل مرحلے سے گزارتا ہے تو اس کو دنیا میں یہ انعام عطاء فرماتا ہے کہ ایسے شخص کی دعاء کو جلد قبول فرماتا ہے۔  
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
’’3 طرح کے لوگوں کی دعائیں رد نہیں کی جاتی(ان میں سے ایک) امام عادل کی دعاء ہے۔‘‘(سنن ابن ماجہ، باب فی الصائم لا ترد دعوتہ )۔
مزید پڑھیں:حرم مکی شریف کی حد ، اللہ تعالیٰ کا محفوظ علاقہ
ذکر کرنے  والے کی دعاء:
اللہ تعالیٰ کے ذکر کے بے پناہ فضائل و مناقب اور اس کے فوائد و ثمرات ہیں ۔ ایسا شخص جو کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کرتا ہے تو اس کی دعاء بھی اللہ جلد قبول فرماتے ہیں، یہ مستجاب الدعوات بننے کا نسخۂ اکسیر ہے۔ 
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
’’3 لوگوں کی دعاء اللہ تعالیٰ رد نہیں فرماتے (ان میں سے ایک) کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کرنیوالے کی دعا ء بھی ہے ۔‘‘(الدعاء للطبرانی، باب دعاء المظلوم)۔
غازی ، حاجی ا ور عمرہ کرنے  والے کی دعاء:
میدان کارزار میں اعلائے کلمۃ اللہ کیلئے جذبۂ  سرفروشی کے ساتھ سربکف سپاہی مشکل حالات کا سامنا کر رہا ہوتا ہے، ان مشکلات پر اللہ تعالیٰ یہ انعام عطاء فرماتے ہیں کہ اللہ ایسے شخص کی دعاء کوقبول فرماتے ہیں۔ حج اور عمرہ کرنے والوں کو بھی اللہ تعالیٰ یہ سعادت نصیب فرماتے ہیں کہ ان کی دعاؤں کو قبول فرماتے ہیں۔ 
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
’’غازی فی سبیل اللہ ، حج کرنے والے اور عمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہیں، ان کو اللہ نے پکارا تو انہوں نے لبیک کہا، وہ اللہ سے دعاء مانگتے ہیں تو اللہ ان کو عطاء فرماتے ہیں۔‘‘(سنن ابن ماجہ، باب فی فضل دعاء الحاج)۔
روزہ دار کی دعاء : 
روزے میں صبح صادق سے غروب آفتاب بھوک ،پیاس اور جائز جنسی تعلقات سے رکنا ہوتا ہے، اگرچہ یہ کچھ وقت کیلئے ہوتا ہے۔ صبح سحری میں بھی کھانا وغیرہ کی اجازت ہوتی ہے اور شام کو افطاری میں بھی کھانے پینے کا حکم ہے۔ اس تھوڑے سے وقت میں اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے اور اس کا حکم ماننے کے لئے جو برداشت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے کہ کھانے پینے کی تمام چیزیں سامنے رکھی ہوئی ہیں لیکن بندہ کچھ نہیں کھا رہا، اس پر اللہ تعالیٰ دنیا میں ہی یہ انعام عطا فرماتے ہیں کہ ایسے شخص کی دعاء کوقبول فرماتے ہیں۔ 
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
’’3 آدمیوں کی دعاء رد نہیں کی جاتی (ان میں سے) ایک روزہ دار ہے یہاں تک کہ وہ افطار کر لے۔‘‘(سنن ابن ماجہ، باب فی الصائم لا ترد دعوتہ )۔
مزید پڑھیں:سوشل میڈ یا ، نسلِ جد ید کے بگاڑ کا سبب
مسلمان بھائی کے لئے عد م موجودگی میں دعاء:
کسی کے سامنے اس کی اچھائی بیان کرنا بھی اچھی بات ہے لیکن اس میں کبھی دنیاوی اغراض ومقاصد کو دخل ہوتا ہے اور جو دعاء اپنے مسلمان بھائی کی عدم موجودگی میں کی جائے اس میں یہ شائبہ بھی نہیں ہوتا۔ اس اخلاص کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ایسے مسلمان کی دعاء کو قبول فرماتے ہیں جو اپنے ایک مسلمان بھائی کیلئے اس کی عدم موجودگی میں کرے۔
حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ جب کوئی مسلمان اپنے بھائی کی عدم موجودگی میں اس کیلئے دعاء کرتا ہے تو ایک مقرر فرشتہ اس کے جواب میں کہتا ہے کہ جو تُو نے اپنے بھائی کے لئے مانگا ہے اللہ تجھے بھی وہی عطا کرے۔‘‘ (صحیح مسلم، باب فضل الدعاء للمسلمین بظہر الغیب )۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ہر حال میں دعاء مانگنے والا بنائے اور ہماری دعاؤں کو قبول بھی فرمائے۔ آمین  
 
 

شیئر: