Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جاپانی خاتون سووی اورا ،خدیجہ بن گئیں

جاپان میں اسلام کی تصویر بگڑی ہوئی شکل میں پائی جاتی ہے، مغربی ذرائع ابلاغ اسلام کو بگاڑ کر جاپانیوں کے سامنے پیش کرتے رہتے ہیں
 
ڈاکٹر محمد لئیق اللہ خان۔ جدہ
 
’’سووی اورا‘‘گوناں گوں صلاحیتوں کی مالک، انشاء پرداز ، شاعرہ اور جاپانی دفتر خارجہ کے ماتحت بین الاقوامی ثقافتی کلب کی رکن ہیں ۔ان کا نیانام خدیجہ ہے۔انہوں نے اپنے اسلام لانے کی کہانی دورہ مصر کے موقع پر مصر کی معروف صحافی خاتون منی محروس کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ کہہ کرسنائی:
میں تائیوان میں پیدا ہوئی تھی۔ اُس وقت تائیوان ،جاپان کی کالونی ہوا کرتا تھا۔والد صاحب میڈیسن کے استاد تھے۔ میں نے ایسے خاندان میں جنم لیا جو سامورائی طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ یعنی ایسے طبقے سے جو قدیم جنگجو شمار ہوتا ہے۔ اس طبقے سے منسوب خاندانوں کی اولادکی تربیت سخت انداز میں کی جاتی ہے۔ اعلیٰ اخلاق اور آداب سکھائے جاتے ہیں۔پھربھی خاندان کے تمام افراد ایک دوسرے سے پیار محبت کیا کرتے تھے۔
 
میں 12برس کی ہوئی تو تائیوان سے جاپان واپس آگئی۔ جاپان کو دوسری عالمی جنگ میں شکست ہوچکی تھی۔ وہاں جزیرہ شیکوکوShikokuکے نیھا ماNihamaشہر میں ثانوی اسکول پاس کیا ۔ ایک کیمیکل کمپنی سومیتومو میں سیکریٹری کے طور پر کام کیا۔ 23برس کی ہوئی تو میں نے شادی کرلی۔میرا خاوند بینک میں ملازم تھا۔ حال ہی میں اسکا انتقال ہوگیا۔میرے 2بیٹے ہیں، دونوں شادی کرچکے ہیں۔ بڑا بیٹا مڈل اسکول کا پرنسپل ہے۔ دوسرا بیٹا امریکہ کی اریکو کمپنی میں اعلیٰ منصب پر فائز ہے۔ میں نے بعد میں کے او یونیورسٹی کی فیکلٹی آف کامرس میں فلسفہ کی تعلیم پائی۔ ایک دینی تنظیم کی معاون کمپنی کی ڈائریکٹر کے طور پر کام کیا ۔ میں نے غیبی علوم کے بارے میں کئی کتابیں تصنیف کی ہیں۔میں بہت کم عمری میں ذہنی طور پر پختہ ہوگئی تھی۔ زندگی کی حقیقت کیا ہے؟ یہ دنیا کیا ہے؟ ،انسان کیا ہے؟اس طرح کے بہت زیادہ سنجیدہ سوالات میرے ذہن میں اٹھنے لگے تھے۔ زندگی کا قافلہ آگے بڑھ رہا تھا البتہ بنیادی سوالات کے نہ ملنے پر زندگی کو سکون کے ساتھ گزارنا بڑا مشکل کام ہے۔ 
 
مزید پڑھیں:معاشروں کی تباہی ، تاریخ کے تناظر میں
 
دیکھئے ماں اپنے بچے کو کوئی سامان خریدنے کیلئے بھیجتی ہے تو بچہ فطری طور پردریافت کرتا ہے کہ وہ کہاں جائے اور کیوں جائے؟ بچہ بھی سمجھے بغیر بات نہیں مانتا۔ عجیب طرفہ تماشہ یہ ہے کہ انسان حقائق سمجھے بغیرزندگی کا سفر جاری رکھتا ہے۔ میں موت کی حقیقت بھی سمجھنا چاہتی تھی۔ میں 38برس کی ہوئی تو میرے کان میں غیبی ندا آئی کہ تمام مخلوق اس کے یہاں برابر نہیں ، وہ تمام مخلوقات کا باپ ہے۔ میں تمہارا باپ ہوں بلکہ میں ہی تمہارے باپ اور تمہارے دادا کا بھی باپ ہوں بلکہ پوری کائنات کا باپ ہوں۔ اس ندائے غیبی کے باعث میرے ذہن میں یہ بات گھر کر گئی کہ تمام انسان ، اللہ کی مخلوق ہیں۔ 
 
مصری صحافیہ منی محروس نے دریافت کیا کہ کیا آپ نے اپنے سوالات کے جواب حاصل کرنے کیلئے مذاہب کا مطالعہ کیا؟خدیجہ نے جواب دیا کہ ترقی یافتہ مغربی معاشروں کی طرح جاپان میں بھی پختہ سوچ یہ ہے کہ سب کچھ سائنس ہے اسی لئے میں نے طے کیا کہ میں اللہ کے بارے میں سائنٹفک سوچ ہی پر انحصار کرونگی۔ میں نے اس ہدف کو پورا کرنے کیلئے مختلف مشکل علوم کا مطالعہ کیا۔ ان میں حیاتیاتی، فزکس، کائناتی فزکس اور برقی فزکس خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ میں اس نتیجے پر پہنچی کہ جدید علم ، مادی دنیا کے سلسلے میں کافی ترقی کرچکا ہے۔ میں نے علم النفس کا نہ صرف یہ کہ مطالعہ کیا بلکہ اس کے گہرے سمندر میں غوطہ زن بن گئی۔
 
میں نے ہندو،بدھ ،عیسائی مذاہب کا مطالعہ کیا۔ میں نے ہندوستانی ادیان اور یونانی افسانوی فلسفہ کا جائزہ لیا۔میں نے رہنمائی کی تلاش میں ہندوستان کا سفر کیا،پھر مصر قدیم کے آثار کے توسط سے اللہ تعالیٰ کی تلاش میں مصر جانے کا فیصلہ کیا۔ حسنِ اتفاق دیکھئے کہ جب میں نے مصر جانے کا پروگرام بنایا تو اس سے 3روز قبل میں نے اتفاقاً ایک مجلہ دیکھا۔ اس میں میرامضمون چھپا ہوا تھا۔میرے مضمون کے بعد (جاپان میں اسلام)کے عنوان سے ایک مضمون تھا جسے کسی جاپانی مسلمان نے جس کا نام (سودا صفا) تھا تحریرکیا تھا۔
 
مزید پڑھیں:وہ جن کی دعائیں جلد قبول ہوتی ہیں!
 
میں نے مصر کے سفرسے قبل مصر کے بارے میں معلومات حاصل کرنیکا پروگرام بنایا۔ میں نے سودا صفا سے رابطہ کرکے ملاقات کی درخواست کی۔ طویل گفتگو کے بعد سودا صفا کہنے لگے: میں جو کہوں تم میرے ساتھ ساتھ اسے دہراؤ۔ انہوں نے کہا: اشہدان لاالٰہ الا اللہ و اشہدان محمداًرسول اللہ ’’ میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتی ہوں کہ محمد اللہ کے پیغمبر ہیں‘‘۔ اس موقع پر سودا صفاکے پاس ان کے 2اور مسلمان دوست بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ میرے مسلمان ہونے کے بعد شاہد بن گئے۔
 
اسلام قبول کرنے کے بعدمیں مصرپہنچی توایسا محسوس ہوا کہ یہاں کے لوگ تو اسی سوچ کے حامل ہیں جو میری سوچ ہے۔ میں نے مسلم معاشرے کو قریب سے دیکھاتومجھے اذان کی آواز ، اذان کی صدا سنتے ہی مصریوں کا مسجدوں کی طرف جانا ، مساجد میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہونا بہت ہی بھلا لگا۔ یہ سارا کام کسی دباؤ کے بغیر محض اپنی مرضی ، اپنی چاہت سے ہورہا تھا۔ یہ مناظر دیکھ کرمیں دل و دماغ سے اسلام کی قائل ہوگئی اور میں نے ازہرشریف پہنچ کر باقاعدہ مسلمان ہونے کا اعلان کردیا۔
 
منی محرس نے پوچھا کہ اِن دنوں جاپانیوں کے ذہنوں پر کونسی فکر چھائی ہوئی ہے؟
انہوں نے جواب دیا کہ جاپانی سائنسی سوچ رکھتے ہیں۔ وہ علمی حقائق اور معقول و مدلل امور کو مانتے ہیں۔ سائنسی غموض والی باتوں پر کان نہیں دھرتے۔ جاپان دوسری عالمی جنگ میں شکست کے بعد سے امریکہ کی استعماری پالیسی کا تابعدار بنا ہوا ہے۔ جاپان میں دینی فکر اور بحث مباحثہ کی آزادی ہے البتہ جاپان کی تاریخ یا اخلاقی علوم کی تدریس پر پابندی ہے۔
 
مزید پڑھیں:نبی مکرم کے مبارک ہاتھوں سے بسنے والے گھر
 
جاپانی  ذہنی گتھیوں سے آزاد ہیں۔ برے عزائم سے پاک ہیں۔ وہ روحانی اقدار میںگہرا یقین رکھتے ہیں۔ جاپانی  سائنٹفک سوچ کے باوجود دیندار تھے لیکن اب جاپانیوں کی بھاری اکثریت عقائد کی پابند نہیں ۔ بہت سارے جاپانی آبائو اجداد سے ورثے میں ملنے والے عقائد کی پابندی کرتے ہیںلیکن اس کا دائرہ مخصوص اوقات تک محدود رہتا ہے۔ زیادہ تر رسوم جنازوں سے متعلق ہیں۔ جاپان میں 2مذہب ہیں۔ جاپان میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے، آبادی کا ایک فیصد بھی نہیں ہونگے۔
 
جاپان میں اسلام کی تصویر بگڑی ہوئی شکل میں پائی جاتی ہے۔ جاپانی صرف جاپانی زبان کے ماہر ہیں۔ بہت کم لوگ انگریزی سے واقف ہیں۔ زبانوں کے حوالے سے جاپان، بند ملک ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ اِسلام کو بگاڑ کر جاپانیوں کے سامنے پیش کرتے رہتے ہیں۔ 
 
امریکہ نے دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپانیوں کو اپنی تاریخ کی تلاش اور اپنی خصوصیات کی تعلیم سے روک دیا تھا۔ نصف صدی تک جاپانی روحانی اور اخلاقی تعلیم سے محروم رہے۔ اسی وجہ سے روحانی ورثہ کی جھلک ماند پڑنے لگی۔ اب جبکہ جاپان میں روحانی اقدار کا احیاء ہوا ہے تو امریکی رفتہ رفتہ اسے کچلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جاپان میں امریکی ثقافت کے غلبہ کے بعد سے جاپانی خواتین اہل و عیال سے روگردانی کرنے لگی ہیں۔ پہلے وہ اپنے خاوند کی تابعداری کواپنا مطمح حیات بنائے ہوئے تھیں، اب وہ آرائش اور فیشن کے چکر میں پڑگئی ہیں۔ مردوزن میں مساوات کی باتیں خوب کھل کر ہونے لگی ہیں۔ اب تو عورت کو مرد کے مقابلے میں طاقتور جتانے کی مہم چل رہی ہے جبکہ خواتین کی روحانی مسرت ،ظاہری کروفر میں نہیں بلکہ خاندانی تعلق کو جوڑے رکھنے میں مضمر ہے۔ 
 
اب جاپانی معاشرہ میں خواتین غیر شادی شدہ زندگی گزارنے لگی ہیں۔ نوجوان خواتین کی بغاوت کی وجہ سے شادی سے بھاگنے لگے ہیں۔ طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے، نئے عائلی نظام کی وجہ سے معمر کنواریوں کا مسئلہ بڑھتا جارہا ہے ۔حکومت خواتین کو جاپان میں بھاری مشاہرہ دیتی ہے۔ اب جاپان میں ذہنی اور سماجی استحکام ناپیدہے۔
جاپان میں یاماتو نظریہ(Yamato)رواج پارہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سب لوگ منظم دائرہ میں ہوں، سب ایک خدا کے سائبان تلے جمع ہوں۔ خدیجہ نے بتایا کہ جاپان اور متحدہ مغربی ممالک میں فرق ہے۔ جاپانی، ذہنی اور سماجی تشکیل کے حوالے سے مغربی دنیا کے باشندوں سے مختلف ہیں۔ جاپانی کمپنیوں میں سینیئرٹی کا بڑا احترام کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک ملازم کی تقرری زندگی بھر کیلئے ہوتی ہے۔  
 
مزید پڑھیں:اللہ تعالیٰ اور رسول سے محبت کا ذریعہ ، ذکر ، شکر ، فکر
 
خدیجہ!آپ جاپانی معاشرہ میں اسلام کا پیغام عام کرنے کیلئے کیا کررہی ہیں؟
نبی محمد ، حجر اسود، قبہ صخرہ اور مسجد اقصیٰ کے عنوان سے جاپانی زبان میں کتابیں تیار کررہی ہوں۔اسلام کے خلاف مغربی ذرائع ابلاغ کی افتراء پردازیوں کا پردہ چاک کررہی ہوں اور جاپانی اخبارات میں اسلام پر مضامین تحریر کررہی ہوں۔ 
 
خدیجہ سے پوچھا گیا کہ ایسی صورت میں جبکہ جاپانی صرف سائنسی حقائق کو تسلیم کرتے ہیں، اسلام کو جاپانیوں میں کیسے متعارف کرایا جاسکے گا؟ 
خدیجہ نے کہا کہ اول تومیں جاپانی عوام کے ذہن و فکر اور مزاج سے واقف ہوں، دوم اسلام کاالحمدللہ گہرا مطالعہ کئے ہوئے ہوں، سوم یہ کہ اسلام کا اسلوب اور مزاج تفکیروالا ہے یہی کامیابی کی ضمانت ہے۔
 

ڈاکٹر محمد لئیق اللہ خان کے مزید مضامین پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

شیئر: