Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

معاشروں کی تباہی ، تاریخ کے تناظر میں

جب قوموں میں بد عملی، بد خلقی، غفلت، بے راہ روی اجتماعی طور پر گھر کر جاتی ہے تو تباہی و بربادی اس کا مقدر بن جاتی ہے
اللہ بخش فریدی۔ اسلام آباد
انسان نے یقیناہر دور میں کوشش کی ہے کہ اس کی اجتماعی معاشرتی زندگی مستحکم رہے۔ جب حیاتِ انسانی کے ارتقا پر نظر ڈالیں تو ہمیں اِس کا رخ اجتماعیت کی طرف ہی نظر آتا ہے۔ تاریخ انسانی نے مختلف معاشرے تشکیل دیئے اور گردشِ زمانہ نے مختلف معاشروں کو پیوند خاک بھی کیا جب وہ اجتماعی طور پر فطرت کے خلاف چلیں ، جب وہ قانون قدرت کو توڑ کر اس کی نافرمان و گستاخ بنی اور خدا کے متعین کردہ اصولوں سے انحراف کیا ۔ بنی نوع انسان کو انفرادی بدعملی کی سزا دنیا میں نہیں ملتی اس کا حساب کتاب آخرت میں ہے مگر جب قومیں اجتماعی طور پر بدعمل ہو جائیں تو اس کی سزاء دنیا ہی میں مل جایا کرتی ہے۔ جب قوموں میں بد عملی، بد خلقی، غفلت، بے راہ روی اجتماعی طور پر گھر کر جاتی ہے تو تباہی و بربادی اس کا مقدر بن جاتی ہے اور تاریخ نے ایسے کئی مناظر دیکھے بھی ہیں۔ قرآن کریم نے بھی مختلف قوموں کی تباہی کا ذِکر کیا ہے جن میں اخلاقی خرابیاں اجتماعی طور پر گھر کر گئی تھیں۔ 
 
   کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کردیا جنہیں ہم نے زمین میں ایسا مضبوط و پائیدار اقتدار دیا تھا کہ ایسا اقتدار تمہیں بھی نہیں دیا اور ہم نے ان پر لگا تار برسنے والی بارش بھیجی اور ہم نے ان (کے مکانات و محلّات) کے نیچے سے نہریں بہائیں پھر (اتنی پرعیش و عشرت والی زندگی دینے کے باوجود) ہم نے ان کے گناہوں کے باعث انہیں ہلاک کردیا اور ان کے بعد ہم نے دوسری امتوں کو پیدا کیا(الانعام 6)۔
مزید پڑھیں:وہ جن کی دعائیں جلد قبول ہوتی ہیں!
اور بیشک ہم نے تم سے پہلے بہت سی قوموں کو ہلاک کر دیا جب انہوں نے ظلم کیا، اور ان کے رسول ان کے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے مگر وہ ایمان لاتے ہی نہ تھے، اسی طرح ہم مجرم قوم کو ان کے عمل کی سزا دیتے ہیں(یونس 13)۔
t   اور ہم نے کوئی بھی بستی ہلاک نہیں کی مگر اس بناء پرکہ ان کے پاس ہماری ایک روشن کتاب تھی (جس کی انہوں نے خلاف ورزی کی ،سو ہم نے ان کو انجام تک پہنچا دیا)( الحجر 4)۔
t    اور ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر دیا ہے، کیا آپ ان میں سے کسی کا وجود بھی باقی دیکھتے ہیں یا کسی کی کوئی آہٹ بھی سنتے ہیں (مریم98 ) 
 
   پس کتنی ہی ایسی بستیاں ہیں جو ظالم تھیں ہم نے انہیں تباہ کر دیا تو وہ اپنی چھتوں سمیت گری پڑی ہیں اور کئی ایک بیکار کنویں اور کتنے ہی مضبوط محل ویران پڑے ہیں۔ کیا انہوں نے کبھی زمین میں گھوم پھر کر نہیں دیکھا کہ اُن کے دل اِن باتوں کو سمجھنے والے ہوتے یا کانوں سے ہی ان کی باتیں سن لیتے، بات یہ ہے کہ صرف ان کی آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوئیں( یعنی یہ لوگ اپنی آنکھوں سے تاریخ پر نظر دوڑا کر عبرت حاصل نہیں کرتے کہ ان سے پہلو ںکا کیا انجام ہوا ہم سے غافل ہونے کے سبب) بلکہ ان کے دل بھی اندھے ہو چکے ہیں جو سینوں میں پڑے ہیں( مردہ حالت میں جنہیں کوئی سوجھ بوجھ نہیں)(الحج46,45)۔
مزید پڑھیں:نبی مکرم کے مبارک ہاتھوں سے بسنے والے گھر
ہم تاریخ کے سبھی ادوار کھنگال کراس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ بحیثیت مجموعی انسان کی معاشرتی زندگی میں بگاڑ غالب رہا اور اصلاح کے بہت کم آثار دیکھنے کو ملتے ہیں۔اسی مجموعی بگاڑ کے نتیجہ میں قومیں زوال پذیر ہوئیں اور اپنے انجام کو پہنچیں۔
 
جب ہم قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ قدرت قوموں کے عروج وزوال اور تباہی و بربادی کے قوانین کے اطلاق میں قوموں کے درمیان فرق نہیں کرتی، جو قوانین یہود و نصاریٰ کیلئے ہیں وہی امتِ مسلمہ کیلئے ہیں، جو اصول اہل باطل کیلئے ہیں وہی اہل حق کیلئے ہیں، جو ضابطے اہل کفر کیلئے ہیں وہی اہل ایمان کیلئے ہیں۔ قرآن کریم میں بیان کردہ قوانین اٹل ہیں جن میں تبدیلی نہیں ہوا کرتی ہے۔ان کو ’’سنۃ اللہ ‘‘ کہا گیا ہے۔ 
سُنَّۃَ اللّٰہِ فِیْ الَّذِیْنَ خَلَوا مِنْ قَبْلُ،  وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا۔
یہی اللہ کی سنت( اللہ کریم کی عادت ، اللہ کا قانون، اللہ کا اصول و ضابطہ اور طور طریقہ رہا) ان لوگوں میں جو تم سے پہلے گزر چکے( اور یہی تمہارے لیے ہیں) ،تم اللہ کے قانون و ضابطے میں کوئی تبدیلی ہرگز نہیں پاؤ گے۔(الاحزاب 62)۔
 
قرآن کا پیمانہ ہمارے سامنے ہیـ۔ اس سے ہم خود کو پرکھ سکتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے؟ اس وقت ملت اسلامیہ کئی بڑے بڑے فتنوں اور صدموں میں گھری ہے۔ ہر بڑا فتنہ چاہے وہ ملکی سطح پر ہو یا عالمی سطح پر ،سقوطِ بغدادہو یا سقوطِ اندلس یا خلافت ِعثمانیہ کا خاتمہ ہویامسئلہ فلسطین اور کشمیرکا، مشرقی تیمور ہو یاچیچنیا،بوسینیا،کوسوؤ، سرب اور برمی مسلمانوں کی نسل کشی ہو یا افغانستان و عراق، شام، لیبیا کی مسماری یا ہندوستان میں اٹھتے مسلم کش فسادات ہوں،یہ سب امتِ مسلمہ کوبیدار کرنے، آزمائش، پَرکھانے اورانھیں خوابِ غفلت سے جگانے کیلئے رونما ہورہے ہیں کہ یہ سب دیکھ کے ان کا خون کھولتا ہے یا نہیں؟ ان کا سویا ضمیر جاگتا ہے یا نہیں؟ ان کی ٹوٹی و مری ہوئی غیرت جاگتی ہے یا نہیں؟
مزید پڑھیں:اللہ تعالیٰ اور رسول سے محبت کا ذریعہ ، ذکر ، شکر ، فکر
مگر شایدہم ان سب آزمائشوں میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کے بھی ہمارا خون نہیں کھولا، ہماری مردہ غیرت نہیں جاگی، ہمارے سوئے ضمیر بیدار نہیں ہوئے۔ بغداد جلتا رہا قوم سوئی رہی، کابل اجڑتا رہا قوم مدہوش تھی، عراق برباد ہو گیا قوم بے غیرتی کی چادر اوڑھے رہی، لیبیا پر آگ و آہن کی بارش ہوئی قوم غفلت سے بیدار نہ ہوئی، فلسطین و کشمیر ، برما میں مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہیـ۔ قوم کی آنکھیں نہیں کھل رہیں۔ ہمارے عظیم جرنیل صلاح الدین ایوبی کی قبر کوتھوڈے مارے گئے اور کہا گیا ۔’’ لو صلاح الدین ہم یہاں تک پہنچ آئے، تم کب تک سوئے رہو گے؟ دراصل یہ صلاح الدین ایوبی ؒ کی قبر کو ٹھوڈا نہیںتھا بلکہ ملت اسلامیہ کے وجود پر ٹھوڈا تھا ۔ہمیں کہا گیا ، ہمیں للکارا گیا کہ لوہم یہاں تک پہنچ آئے تم غفلت سے کب اٹھوگے؟ تمہارے مردہ ضمیر کب جاگیں گے؟ تمہاری خوابدیدہ مردہ روحیں کب بیدار ہوں گی ہم ے مقابلہ کو؟ 
 
مگر افسوس ہم نے دشمن کی للکار پر کان نہیں دھرے۔ہم 313تھے تو زمانے کی کایا پلٹ دی، آج ہم ڈیڑھ ارب ہیں مگر کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ بے جان مٹی کا ڈھیرہیں۔ مٹی میں بھی اگر جان ہوتو بڑے بڑے تن آور شجر پیدا کر کے سائباں تو مہیا کرتی ہے ، مگر ہماری پوری ملت اسلامیہ کے وجود کی مٹی اس سے بھی گئی گزری ہے، بالکل مری کھپی اور بے جان ہے کہ کوئی دید ہ ور پیدا نہیں کر پا رہی جو سائبان بن کر امت پر سایہ فگن ہو۔ ہم تعداد میں اربوں مگر بے جان اور مردہ مٹی کے ڈھیر بن چکے ہیں۔ہمارے حکمر ان بے غیرتی و بے حسی کی چادر اوڑھ چکے ہیں۔ ان کی مذہبی حمیت اور غیرت ِدینی دم توڑ چکی ہے ، انہیں دین و ملت کے ساتھ ہونے والی کسی بھی اونچ نیچ پر کوئی دکھ و صدمہ نہیں پہنچتا۔ دشمن کو میر صادق اور میر جعفر بہت سستے داموں مل رہے ہیں۔جہاں بد د یانت حکومتیںہوں، کرپٹ انتظامیہ ، بے ضمیر رہنما، جھگڑالو علماء،فسادی ملا، بے اثر پیر و مشائخ ہوں تو امت کی بیداری و اصلاح کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟ چمن کے مالی خود ہی چمن کی جڑیں کاٹ رہے ہیں اور اس کے تنوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔  
مزید پڑھیں:سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی الوہیت سے انجیل بھی انکاری
آج کس کے گھر لوٹے جا رہے ہیں؟ کس کے وسائل پر قبضے ہو رہے ہیں؟ آج دنیا میںچار سُو کس کی نسل کشی کی جا رہی ہے؟ آج ہر سو جلی نعشیں، بکھرے لاشے، کٹے اعضاء، بین کرتی مائیں، سسکتی بہنیں، اجڑے سہاگ، بلکتے بے سہارا بچے کس ملت سے وابستہ ہیں؟ آج دنیا میں کونسی قوم ظلم و جبر کی چکی میں پس رہی ہے؟ کیا کبھی کسی نے یہ سوچا؟ کیا یہ سب کچھ دیکھ کے کبھی کسی کا خون کھولا؟ کب بیدار ہو گی یہ سوئی بے جان ملت؟ کب کھولیں گی اس مردہ بے ضمیر امت کی آنکھیں؟ اگر کسی بہت گہری نیند سوئے آدمی کو ٹارچر کریں یا کوئی کیڑامکوڑا بھی ڈس لے تو وہ فوراً بیدار ہو کر ہوشیار ہو جاتا ہے ۔
 
مگر بد نصیب قوم ایسی مدہوش نیند سوئی ہے کہ اتنے بڑے بڑے ٹارچر پہنچنے پر بھی قوم میں ذرا جنبش نہیں آئی کہ وہ کروٹ ہی بدل لے۔ جیسے کسی مردہ کو جتنا مرضی ٹارچر کرتے رہو اس میں ذرا جنبش نہیں آتی بالکل یہی حال ہمارا ہے ۔ ہم غفلت میں پڑے اتنی گہری نیند سورہے ہیں کہ ہماری ملت کے جسم پر کتنے بڑے بڑے ٹارچر اور زخم آئے مگر ہم میں ذرا حرکت و جنبش نہیں آئی۔ یوں لگتا ہے جیسے ہم بیدار ہونے کیلئے اسرافیل علیہ السلام کے ثور پھونکنے کی آواز کے منتظر ہوں کہ ہمیں اگر ثور کی آواز سنائی دے گئی تو ہم اٹھیں گے اس سے پہلے ہم اٹھنے والے نہیںمگر اس وقت اٹھنا ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے گا اور نہ ہمارے کسی مفاد میں ہو گا۔
 
کتاب رحمت کو آگ لگا کراور پیغمبر رحمت کے خاکے تراش کر کے مسلمانوں کو ذہنی اذیت دی جارہی ہے تب بھی غفلت کی نیند سوئی قوم بیدار نہیں ہو رہی۔ ہمارے ضمیر مردہ ہو چکے ، ہماری غیرت دم توڑ چکی۔ اس کی ایک زندہ مثال ابھی کل کی پیش کرتا ہوں کہ وہ کمینہ انسان امریکی جنرل ہوڈ نے گوانتاموبے کے قید خانہ میں مسلمانوں کواذیت دینے کیلئے باتھ روموں میں ٹیشو کی جگہ قرآن مقدس کے اوراق رکھوائے ۔ اس عمل پر تو قرون عالم میں مسلمانوں کو آگ لگ جانی چاہیے تھی اور غفلت سے اٹھ کھڑے ہو کر اس کمینے کو کیفر کردار تک پہنچاتے مگر افسوس کہ اسکے برعکس ہم نے کیا کیا ۔ یہی کمینہ جنرل جب خودکو اسلام کا قلعہ کہنے والے ملک پاکستان آیا تو اُس دور کے حکمرانوں نے اس کے قدموں کے نیچے سرخ قالین بچھا کر اس کا پرتپاک استقبال کیا۔ یہ اس کی زندہ مثال ہے کہ ہماری غیرت مردہ اور ضمیر دفن ہو چکا ہے۔
مزید پڑھیں:قرآن مجید کی عظیم تر سورت ، الفاتحہ
یہ تمام قرائن و شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں سے ہرگز راضی نہیں اور اسی وجہ سے امتِ مسلمہ ہر جگہ ذلیل و خوا ر ہو رہی ہے۔جب ہم لمبی لمبی ، گڑ گڑا کر دعائیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں:یا الٰہی ! ہمارا حال دیکھ ،  تو حکم ہوتا ہے تُو اپنا نامہ اعمال دیکھ۔ 
 
دو سر ی قوموں سے نصیحت اور عبرت حاصل نہ کرنے کی وجہ سے قدرت ایسے ہی عذاب نازل کیا کرتی ہے۔ضروری نہیں کہ آسمان سے پتھر بر سیں یا زمین الٹ جائے اور خوفناک چنگھاڑ سنائی دے۔یہ عذاب کبھی تاتاریوں تو کبھی عیسائیوں، ہلاکو خان، چنگیز خاں ،تیمور خاںکے حملوں کی صورت میں بھی ظاہر ہوتا ہے اور اب امریکہ،ہنداوراسرا ئیل ، طاغوتی و سامراجی قوتوں کے تسلط کی شکل میںہم پر مسلط ہے۔ قدرت اسی طرح ایک غالب طاقت کو دوسری طاقت سے دفع کیا کرتی ہے اور سزا اور عقوبت کیلئے ظالم بادشاہوں کو مسلط کر دیتی ہے۔
 
آج ہمارے اندر ایمان کمزور ہے۔مغرب کی مکاری اور تہذیب و فلسفہ نے ہمارے ایمان کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ہم صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں۔ہمارے کردار یہود و نصاریٰ سے بھی گئے گزرے ہیں۔ ہم سے تو سِکھ بہتر ہیں جو اپنے گرو کی ایک ایک ادا کو اپنائے ہوئے ہیں، سکھ اس وقت دنیا میں جہاں بھی ہیں، جس عہدہ ، جس منصب پر بھی ہیں وہ اپنے گرو کا نمونہ پیش کرتے ہیں ، وہ دنیا کے بڑے سے بڑے منصب پر پہنچ کر بھی اپنے گرو کی سی داڑھی اور سر پر گرو کی سی پگ رکھنے سے نفرت و ہتک محسوس نہیں کرتے۔
 
ہمارے ہاں مجموعی افراد ملت تو دور کی بات جب ہم برصغیر اور بعض عرب ممالک سے باہر کے مذہبی رہنما، دینی اسکالرز، روحانی پیشوا ، مساجد کے امام و خطیب دیکھیں تو ان کے چہروں پر نبی کریم کی سنت دکھائی نہیں دیتی۔ یہ حال ہے ہمارے مذہبی پیشواؤں کا۔ ہماری قوم کا اجتماعی رنگ و روپ مغرب زدہ ہے، اسلام زدہ نہیں۔ آپ ملک کے جس محکمہ، ادارہ، دفتر، بنک، اسکول ، کالج و یونیورسٹی میں چلے جائیں آپ کو مغربی مقلد نظر آئیں گے ۔سب آپ کو مغربی رنگ و روپ میں ڈھلے نظر پڑیں گے۔کلین شیو، پینٹ شرٹ، ٹائی باندھے بظاہر مغربی ، ایمان اور رسول اللہ سے محبت ان کے اندر ایک بند کونے میں چھپی ہوتی ہے کہ بظاہر کوئی دیکھ کر نہ کہہ سکے کہ ہم مسلمان ہیں، جبکہ رسول اللہ سے وابستگی و محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ دنیا آپ کو دورسے دیکھ کر جان جائے کہ یہ محمد کریم کا غلام ہے ۔
لہو و لعب میں جیتیں تو سر سجدے میں ہیں رکھتے
دکھائیں زمانے کو ہم بھی کہیں سے ہیں مسلم لگتے
واضح میں مغرب کی نمو، لباس سے بھی ہیں مغربی جھلکتے
پیرو کہاں سے لگتے آپ کے یہ مغرب و ہنود کے چہکتے
دیا آپ نے درس محبت و الفت و اخوت و وفا کا
سمجھا تیری قوم نے غداری و مکاری و عیاری و دغا کا
مزید پڑھیں:حرم مکی شریف کی حد ، اللہ تعالیٰ کا محفوظ علاقہ
ہم میںمجموعی طور پر اپنے آقا کریم کی کون سی ادا باقی ہے؟ ہم میں آقا کریم کے کون سے اخلاق و اطوار باقی ہیں؟ ہم میں آپ کا کونسا کردار پایا جاتا ہے؟ ہم آپ کے کس اسوہ پر عمل پیرا ہیں؟ جواب…یقینا کوئی نہیں ،مگر اس کے برعکس آج وہ کونسی اخلاقی خرابیاں ہیں جو ہم میں، ہمارے معاشرہ میں اجتماعی طور پرموجود نہیں ؟ وہ کونسی غلاظت، گندگی ، بیہودگی ہے،وہ کونسے غلط اطوار ہیں جو ہم میں نہیں پائے جاتے؟ وہ کونسی بد خلقیات ہیں جن کی ہم میں کثرت نہیں؟ ظلم و زیادتی، فساد،حسد، حق تلفی اور مفاد پرستی کیا ہمارا اجتماعی فعل نہیں ؟ منشیات کے بازار، ہوس کے اڈے ، شراب خانے ، جوا ، چوری، ڈاکہ زنی، قتل وغارتگری،زنا کاری، رشوت خوری، سود و حرام خوری، دھوکہ دہی، بددیانتی، جھوٹ،خوشامد، دوغلے پن، حرص، تمہ، لالچ، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی آخر وہ کون سا اخلاقی مرض ہے جو ہم میں نہیں پایا جاتا؟ بد عنوانی و کرپشن اور خود غرضی کا ایسا کونسا طریقہ ہے جو ہم نے ایجاد نہیں کیا؟ دھوکہ دہی، فریب اور مفاد پرستی کی ایسی کونسی قسم ہے جو ہمارے مسلم معاشرہ میں زوروں پر نہیں؟ تشدد، تعصب، عصبیت اور انسان دشمنی کے ایسے کونسے مظاہرے ہیں جو ہمارے اسلامی معاشرہ میں دیکھنے کو نہیں ملتے؟ ان سوالات کا جواب یقینا ہاں میں ملے گا۔
 
یہ سب کچھ اور اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ برا ہے ہمارے معاشرہ میں مگر پھر بھی ہم مسلمان کہلوانے میں ذرا شرم محسوس نہیں کرتے۔ اچھے مسلمان تو بہت دور کی بات ہم تو اچھے انسان بھی نہیں ۔ہماری مسجدوں سے جوتے اٹھائے جاتے ہیں، مسجدوں کے گندے لوٹے بھی لوگوں کی دست ریزی سے محفوظ نہیں، مسجدوں اور پبلک مقامات کی لیٹرینوں میں کیا کیا بیہودہ اخلاق  سے گری باتیں لکھی ہوتی  ہیں، گلی میں چلتے موبائل فون جھپٹ کر لے جاتے ہیں، ہمارے ہاں گلی بازاروں میں واٹر کولر نصب ہوںتو گلاس کو زنجیر سے باندھ کے رکھنا پڑتا ہے۔ یہ ہے ہمارے کردار کی جھلک۔ ہمارے معاشرہ میں انسان نما جانور بستے ہیں، جنہیں نہ کوئی تہذیب ہے نہ کوئی شعور۔ 
منزل و مقصود قرآں دیگر است
رسم و آئیں مسلماں دیگر است
در دل او آتش سو زندہ نیست
مصطفی در سینہ او زندہ نیست
مزید پڑھیں:دعا عبادت کا جوہر
قرآن کریم کی منزل اور اس کا مقصود اور ہے ، ہماری منزل اور ہمارا مقصود کچھ اور ہے۔ہم کچھ اور کے طلبگار ہیں، ہم قرآن بھی رکھنا چاہتے ہیں اور باطل اطوار و روایات بھی۔ہم سنت بھی رکھنا چاہتے ہیں اور غلط خرافات و کردار بھی۔ قرآن کے احکام، اصول و ضوابط کچھ اور ہیںجبکہ ہمارے رسوم، ہمارے اطوار، ہماری روایات کچھ اور ہیں ۔ ہم قرآن کریم اور اس کی تعلیمات سے دور ہوتے جا رہے ہیں ۔ مسلمان کے دل میں جلا دینے والی وہ آگ نہیں جو ہر باطل کو جلا دے۔ حضرت محمد مصطفی ان کے سینوں میں زندہ نہیں ، ان کے دلوں میں حضور اکرم کی محبت و الفت باقی نہیں۔ 

اللہ بخش فریدی کے دیگر مضامین پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

 
 
 
 
 
 
 
 
 

شیئر: