Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آخرت کا پتہ

   زبیر پٹیل ۔ جدہ 
اگر آپ کو اچانک یہ پتہ چلے کہ آج آپ کا دنیا میں آخری دن ہے یا زندگی ختم ہونے میں چند دن رہ گئے ہیں؟ تو آپ کیا کریں گے؟ یہ وہ سوال ہے جس پر ہر شخص چونکے گا مگر یہاں بات یہ نہیں کہ آج یا کل آخری دن ہے۔سوچنا یہ ہے کہ اگر آج آخری دن ہے تو دنیا سے رخصتی کیلئے ہم نے کیا تیاری کی ہے؟کہیں کسی کا دل تو نہیں دکھایا، کہیں کوئی غلط کام تو نہیں کیا، کسی کو ناحق و ناجائز پریشانی میں مبتلا یا اگر دکاندار ہیں تو ناپ تول میں ڈنڈی تو نہیں ماری۔ دنیا سے رخصت ہونے کے حوالے سے سوال ایسا ہے کہ ہر شخص سوچنے پر مجبور ہوگا ۔اس کی مثال کچھ اس طرح ہے کہ اگر کسی مرض میں مبتلا شخص کویہ معلوم ہوجائے کہ اس کی زندگی کا آج آخری دن ہے تو وہ پریشانی میں مبتلا ہوگا کیونکہ وہ اس سوچ میں مصروف ہوجائیگا کہ اب وہ کس طرح اپنے گناہوں سے معافی ان تمام لوگوں سے کیسے مانگے گا؟
اسی سلسلے میں ایک شخص کا قصہ کچھ یوں ہے کہ اسکی میڈیکل رپورٹ آئی تو معلوم ہوا کہ اسے کینسر آخری اسٹیج کا ہے جس میں وہ 24گھنٹوں میں کبھی بھی مر سکتا ہے۔ اس شخص کی حالت اس وقت ایسی تھی کہ کاٹو تو خون نہیں، اسکے بعد اسے کھانے پینے کا ہوش بھی نہ رہا بس سارا دن عبادت میں لگا رہا اور جو بھی ملتا اس سے رو ، رو کر معافی تلافی کرتا رہتا تھا۔الغرض اس نے پورا دن اسی طرح گزار دیا۔ اس دن اس نے اپنے آپ کو بیحد ہلکا پھلکا محسوس کیا۔ رات کو نیند بھی بیحد اچھی آئی۔ جب دوسرا دن بھی اختتام پذیر ہوا تو اسے تشویش ہوئی اور اس نے جب اسپتال جاکر تشخیص کی تو معلوم ہوا کہ رپورٹ بدل گئی، اور وہ صحتمند ہے۔
یہ قصہ بتانے کا مقصد یہاں یہ تھا کہ ضروری نہیں کہ وقتِ آخرت کا پتہ چلے تب ہی ہم معافی تلافی کا کام انجام دیں ۔ ضروری یہ ہے کہ واپسی کی تیاری انسان کو ہر وقت کرنی چاہئے ۔ہم میں سے کسی کو پتہ نہیں کہ کب زندگی کا چراغ گل ہوجائیگا اور معافی تلافی کا موقع پھر مل سکے گا یا نہیں۔ انسان وہی اچھا ہے جو ہر وقت ذکر الہٰی کرتا رہے اور ہر ایک سے عجز و انکساری کیساتھ بات کرے۔ یقینا یہ دل کے سکون و چین اور آخرت کی تیاری کیلئے بہترین عمل ہے۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں