Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انگریزی زبان میں ’رومانس‘ کہاں سے آیا؟

اردو کا لفظ ’رُومان‘ انگریزی romance (رومانس) کی مُؤَرَّد صورت ہے۔ فوٹو فری پک
اُف وہ مرمر سے تراشا ہوا شفاف بدن 
دیکھنے والے اُسے تاج محل کہتے ہیں 
شعرقتیل شفائی کی غزل کا ہے جسے مشہور گلوکار نوئل ڈیاس (Noel Dias) المعروف ’سلیم رضا‘ نے دلکش اندازمیں گایا ہے۔ مگر استاد کو درج بالا شعر سے تکنیکی بنیادوں پر اختلاف ہے۔ اُن کے مطابق شاعر نے مرمریں بدن کو تاج محل بتا کر محبوب کا مزار بنا دیا ہے۔ ہمیں اُستاد سے اتفاق نہیں کہ ہم ان باتوں میں نہیں پڑتے اس لیے آگے بڑھتے ہیں۔ 
لفظ ’مرمر‘ جسے سنگ مرمر بھی کہا جاتا ہے، اردو اور فارسی میں عربی زبان سے آیا ہے، مگر یہ لفظ عربی الاصل نہیں، اس لیے اس کا شمار ’مُعرَب‘ الفاظ میں ہوتا ہے۔
عربی میں ’مرمر‘ کا مترادف لفظ ’رُخَامُ‘ ہے۔ اس خوبصورت پتھر کو تراشنے، صاف کرنے اور فروخت کرنے والے تینوں کو ’رُخَامُ ‘ کی نسبت سے ’رَخَّامُ‘ کہا جاتا ہے۔ 
آپ پوچھ سکتے ہیں کہ اگر ’مرمر‘ عربی لفظ نہیں ہے تو اس کی اصل کیا ہے؟  
عرض ہے کہ ’مرمر‘ اصلاً یونانی لفظ ہے۔ یونانی میں جگمگانے اور چمکنے کے لیے ایک لفظ ’مارمائرین/ marmairein‘ آیا ہے۔ چونکہ یہ پتھر چمکدار ہوتا ہے اس نسبت سے اہل یونان نے اسے مارماروس (marmaros) یعنی ’چکمدار پتھر‘ کا نام دیا۔  
یونانی ’مارماروس‘ لاطینی میں ’مارمُر/ marmor‘ ہوا اور فرانسیسی میں ’ماربر/ marbre‘ کہلایا جو انگریزی تک پہنچتے پہنچتے ’ماربل/marbalr‘ ہوگیا۔
غور کریں تو یہاں صوتی تبادل کا اثر صاف نظر آئے گا، یعنی ’مارمر‘ کا آخری ’م‘ فرانسیسی میں ’ب‘ سے اور انگریزی میں آخری ’ر‘ حرف ’ل‘ سے بدلنے پر ’مارمر‘ کا لفظ ’ماربل‘ میں بدل گیا۔ 

بعض عاشق مزاج اپنے ’عہدِ رومان‘ میں محبوب کو ’انار دانا‘ بھی پکارتے ہیں۔ فوٹو فری پک

یونان سے ہندوستان تک سنگ مرمر سے بنے خوبصورت محلات و دلکش مجسمات اپنے بنانے والوں کی بے ثباتی کا نشان ہیں۔ کسی نے سچ کہا ہے: 
آدمی بلبلہ ہے پانی کا  
کیا بھروسا ہے زندگانی کا  
پانی کا ’بلبلہ‘ اصل میں سنسکرت کا ’بُڑبُڑا‘ ہے جو حرف ’ڑ‘ کے ’ل‘ سے بدلنے پر ’بلبلہ‘ ہو گیا ہے۔ 
پھر اس ’بلبلہ‘ کے ساتھ انگریزی ’bubble‘ پر غور کریں باآسانی معلوم ہوجائے گا کہ اس لفظ کا آبائی وطن کون سا ہے۔ یہ لفظ لہجے کے فرق کے ساتھ ’ہند یوروپی گروہ‘ کی بہت سی زبانوں میں موجود ہے مثلاً لاطینی میں’ بُلا(bulla)، کیتالانی میں بُمبُلا (Bombolla) یا لیتھونین میں  بُربُلاس (Burbulas) وغیرہ۔ 
پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ حُسن بیان میں فارسی دنیا کی کسی بھی بڑی زبان کی ہم پلہ ہے۔ اس بات کا ثبوت ’بلبلہ‘ کی خوبصورت فارسی تشبہات ہیں۔ سطح آب پر بنتے بگڑے بلبلوں کو معمار نے دیکھا تو’گنبدِ آب‘ پکارا، باغابان کو یہ ’غنچۂ آب‘ نظرآیا۔ لشکر گاہ میں اسے’سیاب‘(خیمہ آب) کہا گیا تو رزم گاہ میں اس نے ’آب سوار‘ اور’افراسِ آب (پانی کے گھوڑے) نام پایا۔ 
فردوسی کی مشہور نظمیہ داستان ’شاہنامہ‘ کا ایک کردار’افراسیاب‘ ہے۔ اس کو ترکستان کا ظالم بادشاہ بتایا گیا ہے، یوں اس کے معنی میں ’خوف و دہشت‘ شامل ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ظالم ’افراسیاب‘ کو ’افراسِ آب‘ جسے ’افراسیاب‘ بھی لکھتے ہیں، سے مراد کوئی علاقہ نہیں۔

یونان سے ہندوستان تک سنگ مرمر کے محلات اپنی بے ثباتی کا نشان ہیں۔ فوٹو فری پک

’بلبلہ‘ کو فارسی میں ’حَبَابَ‘ بھی کہتے ہیں جو ظاہر ہے کہ سرزمین عرب سے ایران و ہندوستان آیا اور فارسی ہی کی طرح اردو میں بھی بار پایا ہے۔ میرتقی میر کی مشہور غزل کا مطلع ہے: 
ہستی اپنی حباب کی سی ہے 
یہ نمائش سراب کی سی ہے 
’حَبَابَ‘ لفظ ’حَبُّ‘ کی جمع ہے۔’حَبُّ‘ کے معنی میں ’دانہ، بیج، دانے کے مشابہ کوئی چیز اور گولی‘ داخل ہے۔ اس کی ایک جمع ’حُبُوب‘ بھی آئی ہے۔
اسی طرح شکل وصورت میں ’حُبُوب‘ سے تشبیہ دے کر پانی کے بلبلہ کو ’حَبابُ الماء‘ کہا جاتا ہے۔ دانے اور گولی کی رعایت سے عربی میں ’اولے‘ کو ’حَبُّ الغَمَام‘ اور’حَبُّ المُزْن‘ کہتے ہیں، جب کہ اناردانا ’حَبُّ الرُّمَّانِ‘ کہلاتا ہے۔ 
عربی ’رُمّان‘( انار) کا اردو ’رُومان‘ (معاشقہ) سے فقط اتنا تعلق ہے کہ بعضے عاشق مزاج اپنے ’عہدِ رومان‘ میں محبوب کو ’انار دانا‘ پکارتے ہیں، بعد از بیاہ ’رُمان‘ مزاجاً تُرش نکل آئے تو بقیہ عمر دھائی دیتے گزرتی ہے
 ’بات ہے یہ خواب کی رومان آدھا رہ گیا۔‘
انارکی طرح مزیدار بات یہ بھی ہے کہ اردو ’رُومان‘ جس کے معنی میں ’معاشقہ، محبّت، جذباتیت اور عشقیہ کیفیت‘ وغیرہ شامل ہے اصلاً انگریزی romance (رومانس) کی مُؤَرَّد صورت ہے۔ خود انگریزی میں ’رومانس‘ کہاں سے آیا اس بحث کو چھوڑتے اور آگے بڑھتے ہیں۔ 

ماربل کو اہل یونان مارماروس (marmaros) یعنی ’چکمدار پتھر‘ کہتے تھے۔ فوٹو فری پک

اردو میں ’رومان‘ سے ’رومانی‘ اور ’رومانوی‘ کے سے الفاظ  اور ’رومان انگیز، رومان پرور اور رومان پسند‘ جیسی تراکیب پیدا ہوئیں، یوں کسی طور بھی معلوم نہیں ہوتا ہے کہ ’رومان‘ بدیسی لفظ ہے۔
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ ’بَدیس‘ کو زیر کے ساتھ ’بِدیس‘ بھی کہتے ہیں۔ یہ ’دیس‘ کی ضد ہے جس کی ایک صورت ’دیش‘ بھی ہے۔ اس دیش کو ’بنگلہ دیش‘ کے نام اور دیش بھگت( خادمِ وطن) کی ترکیب میں دیکھ سکتے ہیں۔  
’بدیس‘ کو دیس سے پرے ہونے پر ’پردیس‘ بھی کہتے ہیں۔ جس کی ایک صورت ’پردیش‘ بھی ہے اسے آپ ’دوجیندر دوج‘ کے شعر میں دیکھ سکتے ہیں: 
دور پردیش کے تارے میں بھی شبنم کی طرح 
میری آنکھوں میں چمکتی رہی مٹی میری 
مگر عجیب بات یہ ہے کہ ’پردیش‘ کے ایک معنی ’اجنبی ملک‘ ہیں تو دوسرے معنی میں مقام، جگہ، علاقہ اور ضلع وغیرہ شامل ہے۔ اسے آپ بھارتی ریاست ’اُترپردیش‘ اور ’مدھیا پردیش‘ کے نام میں دیکھ سکتے ہیں۔ 
باخبر رہیں، اردو نیوز کو ٹوئٹر پر فالو کریں

شیئر: