Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیف سٹی کیمرے غیر فعال: ’نو مئی کے واقعات میں ملوث شرپسندوں نے نشانہ بنایا‘

سیف سٹی کیمروں کی مدد سے نو مئی کے واقعے میں ملوث کئی افراد کی شناخت کی گئی (فوٹو: سوشل میڈیا)
چند برس قبل جب پاکستان کے مختلف شہروں کی سکیورٹی کے لیے سمارٹ کیمروں کے استعمال کا فیصلہ کیا گیا تو قرعے میں سب سے پہلے لاہور کا نام نکلا۔
سال 2016 میں ’سیف سٹی‘ کے نام سے ایک پراجیکٹ کا آغاز ہوا اور دو ہی سال میں آٹھ ہزار کیمروں سے شہر کی سڑکوں اور گلی کوچوں پر جدید ترین انٹرنیٹ سے منسلک کیمروں کا جال بچھ گیا۔
یہ کیمرے صرف ویڈیوز ریکارڈنگ نہیں کرتے بلکہ گاڑیوں کی نمبر پلیٹوں کی پہچان کر کے ٹریفک کی خلاف ورزی کرنے والی گاڑیوں کو چلان بھیجتے ہیں۔
یہی نہیں بلکہ ایسے مجرم جن کی تصاویر اور ڈیٹا سسٹم میں موجود ہے، انہیں پکڑنے میں بھی معاون ہیں۔
9 مئی کے واقعات اور سیف سٹی:
سیف سٹی کے کیمروں نے گزشتہ مہینے نو مئی کو لاہور کے لبرٹی چوک سمیت مختلف مقامات پر احتجاج کے لیے اکھٹے ہونے والے گروپوں کو مانیٹر کیا اور انہی کیمروں کی مدد سے کئی افراد کی شناخت کی گئی اور ان پر اشتعال پھیلانے کے مقدمات بھی درج ہوئے۔
تاہم جلد ہی شرپسند عناصر کو اندازہ ہو گیا کہ یہ کیمرے ان کے لیے خطرہ ہو سکتے ہیں لہذا 9 اور 10 مئی کی درمیانی رات کو چند گروہ متحرک ہوئے اور انہوں نے سیف سٹی کیمروں کو نشانہ بنا کر نقصان پہنچایا۔
پنجاب سیف سٹی اتھارٹی میں کام کرنے والے ایک اعلٰی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اس رات چند گروپ ایسے تھے جنہوں نے مین بلیوارڈ ، ماڈل ٹاون اور کینٹ کے داخلی راستوں پر لگے سیف سٹی کے کیمروں اور دیگر تنصیبات کو نقصان پہنچایا حتی کہ ویڈیوز کو محفوظ کرنے والی ہارڈ ڈسکس بھی چوری کی گئیں۔‘
ایک اندازے کے مطابق سیف سٹی کی 50 کے قریب تنصیبات کو نقصان پہنچایا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب سیف سٹی کیمروں کو نقصان پہنچایا جا رہا تھا اس وقت چینی کمپنی ہواوے کے انجینیئرز کی ٹیمیں ایک پرانے معاہدے کی بحالی کے بعد پورے شہر میں لگے کیمروں کی صحت سے متعلق اپنا سروے کر رہی تھیں۔

سیف سٹی کے کیمروں نے لاہور کے لبرٹی چوک سمیت مختلف مقامات پر احتجاج کے لیے اکھٹے ہونے والے گروپوں کو مانیٹر کیا (فوٹو: اے ایف پی)

صرف 60 فیصد کیمرے اِن ایکشن:
نو مئی کے واقعات میں پہنچنے والا نقصان اپنی جگہ لیکن اُردو نیوز کا حاصل سیف سٹی اتھارٹی اور چینی کمپنی ہواوے کے درمیان تصفیہ کے معاہدے کی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ شہر میں لگے ’آٹھ ہزار کیمروں میں سے تقریباً آدھے اپنی صحیح استعداد میں کام کررہے ہیں اور باقی آف لائن ہیں۔‘
ہواوے کمپنی نے پراجیکٹ کے افتتاح کے بعد دیکھ بھال کی ذمہ داری ترک کر دی تھی۔ دستاویزات کے مطابق ان کا دعویٰ تھا کہ جب سیف سٹی پراجیکٹ کا معاہدہ کیا گیا تھا اُس وقت ڈالر ریٹ 104 روپے تھا تاہم 2018 میں جب پراجیکٹ لانچ ہوا گیا تو ڈالر 125 تک پہنچ گیا تھا۔
گزشتہ پانچ سال سے سیف سٹی کیمروں کی دیکھ بھال اور سافٹ وئیر کی اپڈیشن پر کام نہیں ہوا۔ جو بھی کیمرہ خراب ہوا اس کو دوبارہ ٹھیک نہیں کیا جا سکا۔ اور اس وقت تک 3500 سے 4000 تک کیمرے بند ہیں۔
معاہدہ بحال کیسے ہوا اور بحالی کب ہو گی؟
سیف سٹی اتھارٹی کے چیف آپریٹنگ آفیسر کامران خان نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’ہم نے گزشتہ دو سال سے ہواوے کو اس بات پر قائل کرلیا ہے کہ وہ پرانے معاہدے کے تحت کام کرنے کی پابند ہے لیکن انہوں نے ایک شرط رکھی تھی کہ تصفیے کے معاہدے کو پنجاب کابینہ بھی مانے۔ جس وجہ سے معاملہ تاخیر کا شکار رہا۔ گزشتہ برس دسمبر میں کابینہ سے منظوری کے بعد چینی انجینیئرز تمام کے تمام آٹھ ہزار کیمروں کی صحت کو چیک کر رہے ہیں۔‘
مبصرین کے مطابق  پنجاب میں گزشتہ دوبرس سے جاری بحران کا اثر صوبے کے اندر جاری ترقیاتی کاموں پربھی پڑا ہے۔ یکے بعد دیگرے حکومتوں کی تبدیلی اور عارضی وزیراعلٰی اور پہلے اسمبلیوں کی تحلیل نے ان تمام منصوبوں کو اثر انداز کیا ہے۔
سیف سٹی اتھارٹی کے مطابق تکنیکی خرابیوں کا شکار ہونے والے کیمروں کو تو ہواوے کمپنی اپنے پرانے معاہدے کے مطابق اور اسی قیمت پر ٹھیک کرے گی جبکہ نو مئی کو ہونے والے نقصانات کی کوریج اس معاہدے کا حصہ نہیں ہو گی۔ التبہ اتھارٹی کو یقین ہے کہ رواں سال سیف سٹی پراجیکٹ کے تمام کیمرے 100 فیصد بہتر کارکردگی دکھائیں گے۔‘

شیئر: