Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ عادات جنہیں مستقل اپنانے سے جسمانی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں

ماہرین لائف سٹائل میں اعتدال پسندی کا مشورہ دیتے ہیں۔ فوٹو: انسپلیش
جب ہماری پسندیدہ چاکلیٹ، چپس یا کسی بھی قسم کے زیادہ کیلوری والے کھانے کی بات آتی ہے تو ماہرین کا کہنا ہے کہ انہیں اعتدال میں کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ 
تاہم کیا آپ جانتے ہیں کہ یہی اصول بعض صحت مند کھانے اور طرز زندگی کی عادات پر بھی لاگو ہوتا ہے جنہیں بہت سے لوگ صحت مند بھی سمجھتے ہیں۔
عادات کے حوالے سے سیدتی میگزین نے ’دی سن‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے حوالے سے مضمون شائع کیا ہے جس میں انسان کی خوراک اور بعض روز مرہ کی عادتوں کے بارے میں اہم اور دلچسپ معلومات پیش کی ہیں۔ 
سبزیوں کا استعمال
رپورٹ کے مطابق بہت زیادہ سبزیاں کھانے سے بھی جسم پرمنفی اثرات مرتب ہوتے ہیں خاص طور پر وہ افراد جو آنتوں کے سنڈروم کے عارضے میں مبتلا ہوں۔ 
اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ بالغ افراد روزانہ کم از کم 400 گرام پھل اور سبزیاں کھائیں تاکہ غیر متعدی بیماریوں کے خطرے کو کم کیا جا سکے۔ اگرچہ یہ زیادہ فائبر والی غذائیں آپ کی مجموعی صحت کے لیے اہم ہیں، لیکن ان کا ضرورت سے زیادہ استعمال صحت کے سنگین مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔ 
 بائیو کلٹ کی تکنیکی مشیر انڈریا برٹن کہتی ہیں کہ بہت سے لوگوں کو گوبھی اور بروکولی جیسی سبزیاں کھانے کے بعد اپھارہ، گیس یا اسہال کی شکایت ہوتی ہے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ کچی سبزیاں اگرچہ نظام ہاضمہ کو متاثر نہیں کرتیں ان میں موجود فائبرکی بہتات سے ان کا مسلسل استعمال ہاضمے پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔ 
انڈریا کا مزید کہنا تھا کہ مشروم، اجوائن، بروکلی اور پیاز جیسی اشیا کا شمار کھانوں کی فہرست میں ’ٹاپ فوڈ میپ‘ میں کیا جاتا ہے جو ان علامات کو فعال کرتی ہیں۔ 

آنتوں کے سنڈروم کا شکار افراد کو چند سبزیاں کھانے میں احتیاط برتنی چاہیے۔ فوٹو: انسپلیش

ماہرین نے اس حوالے سے مختصر مدت کے لیے ’لو فوڈ میپ‘ پروگرام پر عمل کرنے کا مشورہ دیا ہے تاکہ نظام انہضام کو درست رکھا جا سکے جس سے جسمانی صحت پر منفی اثرات مرتب نہ ہوں۔ 
کھانے جن میں ہسٹامین کی مقدار زیادہ ہے 
ہسٹامین ایک ایسا کیمیکل ہے جو آپ کے مدافعتی نظام کو فعال کرتا ہے اوربنیادی طور پر الرجی کی علامات کو ظاہر کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ 
یہ کیمیکل ان کھانوں میں پایا جاتا ہے جنہیں ہم صحت مند تصور کرتے ہیں جیسے کہ خشک میوہ جات، ایوکاڈو اور ڈیری کی مصنوعات وغیرہ۔
ماہرخوراک ہانا برائی کا کہنا ہے کہ ہسٹامین کی کثرت جسم میں ان خلیات پر اثر انداز ہوسکتی ہے جو مدافعتی نظام کو فعال رکھتے ہیں۔ انکا مزید کہنا تھا کہ مذکورہ صورت میں بعض مشکلات جیسا کہ موشن، بخار کھانسی، سانس لینے میں دشواری اوربلڈ پریشر کے مسائل کے علاوہ سر درد کی علامات پیدا ہوسکتی ہیں۔ 
غذائی سپلیمنٹس کا استعمال
غذائی امورکے ماہر ڈیوڈ وینر کا کہنا ہے کہ متوازن غذا کے ساتھ ساتھ بعض وٹامن بھی لینا ضروری ہیں تاکہ جسمانی نظام بہتر رہے اورنشو نما اچھے انداز میں ہو سکے تاہم استعمال میں اعتدال پسندی ہی بہتر ہے۔
خوراک میں وٹامن سی کی کثرت جو کہ اکثر پھلوں یا سبزیوں میں پایا جاتا ہے متلی، پیٹ کے درد یا ہاضمے کے مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔ 
اس بارے میں ماہرخوراک ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ مقررہ حد سے زیادہ وٹامنز کا استعمال نہ کیا جائے اور علامات ظاہر ہونے پر معالج سے رابطہ کریں تاکہ مناسب حل سے آگاہی حاصل کی جاسکے۔ 

بہت زیادہ ورزش بھی جسم کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ فوٹو: انسپلیش

پانی کا کثرت سے استعمال 
ویسے تو پانی کی بوتل ساتھ رکھنے سے پانی پینا یاد رہتا ہے اور آسانی سے وقتاً فوقتاً پیا جا سکتا ہے۔
تاہم اس حوالےسے انڈریا کا کہنا ہے کہ بوتل میں پانی پینے سے بہتر ہے کہ نل سے پیا جائے کیونکہ بعض اوقات بوتل میں بند پانی کے بارے میں درست طور پ رمعلوم نہیں ہوسکتا کہ یہ کب بھرا گیا تھا اوراس میں کیمیکل کا تناسب کیا ہے اس لیے بعض حالتوں میں یہ مضر بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ 
انڈریا کا مزید کہنا تھا کہ بوتل والے پانی کو استعمال کرنے سے قبل اس پر درج معلومات کو جان لینا ضروری ہوتا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ پانی کب بھرا گیا اورکس چشمے کا ہے علاوہ ازیں اسے فلٹرکرنے کے بارے میں بھی معلومات بوتل پر درج ہوتی ہیں۔ 
ماہرین خوراک کا مزید کہنا تھا کہ لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے نل میں آنے والے پانی کو خود ہی فلٹر کر کے استعمال کریں تاکہ کسی قسم کا شک نہ رہے۔ 
چکنائی والی خوراک سے گریز کریں
اگرچہ چکنائی والی خوراک کا بہت زیادہ استعمال مناسب نہیں تاہم یہ بھی درست نہیں کہ مسلسل اس سے گریز کیا جائے۔ ایسی خوراک خریدنے سے قبل اس بات کی یقین دہانی کر لی جائے کہ جو اشیائے خور و نوش خرید رہے ہیں اس پر چسپاں لیبل میں چکنائی اور کیلوریز کا تناسب کتنا درج ہے تاکہ اسی حساب سے خوراک استعمال کی جائے۔ 
چکنائی میں کاربوہائیڈریٹس اورپروٹین کی نسبت دوگنا کیلوریز ہوتی ہیں تاہم چربی کی صحت مندانہ اقسام بھی موجود ہیں جن کا استعمال کافی مفید رہتا ہے۔ 
گری دار میوے، بیج ، ایوا کاڈو اورزیتون کے تیل میں صحت بخش چکنائی پائی جاتی ہے جن کا استعمال انسانی صحت کے لیے کافی مفید ہوتا ہے جو صحت مند خلیات اور ہارمونز کی حفاظت بھی کرتے ہیں۔ 
ورزش کا فائدہ 
توانا اور صحت مند جسم کے ساتھ ساتھ صحت مند دماغ کے لیے ورزش انتہائی ضروری ہے جس سے جسم مٹاپے اور بیماریوں سے بھی محفوظ رہتا ہے۔ 
اس حوالے سے ماہرخوراک ڈیوڈ کا کہنا تھا کہ جسمانی ورزش مرحلہ وار اور باقاعدگی سے مناسب انداز میں کی جائے، زیادہ کرنے سے نقصان بھی ہو سکتا ہے۔

بوتل کے پانی کے بجائے نل کا پانی بہتر سمجھا جاتا ہے۔ فوٹو: انسپلیش

چیونگم چبانا
وہ افراد جو مرغن غذا استعمال کرتے ہیں ان کے لیے چیونگم چبانا کافی مفید ہوتا ہے خاص طور پر مٹھاس والے چیونگم جو کہ کھانوں کے وقفے کے درمیان چبائی جائیں اس سے قدرتی طور پرہوا معدے میں داخل ہوتی ہے جس سے معدہ بھرا ہوا محسوس ہوتا ہے اورکھانے کی رغبت نہیں رہتی۔ 
مٹھاس سے خالی چیونگم چبانا مناسب نہیں ہوتا کیونکہ اس میں مصنوعی مٹھاس شامل کی جاتی ہے جو آسانی سے ہضم نہیں ہوتی اوراس کی وجہ سے انتفاخ (پیٹ کا پھولنا) ہوتا ہے۔ 
کثرت سے ہاتھوں کو سینیٹائز کرنا 
کووڈ 19 یا کورونا کی وبا کے بعد بیشتر لوگوں نے مستقل بنیادوں پر ہاتھوں کو سینیٹائز کرنے کی عادت اختیار کر لی ہے جس کےلیے وہ ہمہ وقت اپنے ہمراہ سینیٹائزر رکھتے ہیں۔ 
اگرچہ جراثیم کو دور رکھنے کے لیے اینٹی بیکٹریا ضروری ہے تاہم اس کا کثرت سے استعمال کرتے رہنا جلد کے مائیکروبایوم سسٹم کو عدم توازن کا شکار کر دیتا ہے جس سے قدرتی مدافعتی نظام متاثر ہو سکتا ہے۔ 

شیئر: