Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’قاری صاحب نے پہلے تشدد کیا پھر میرے بیٹے کو چھت والے پنکھے پر دے مارا‘

سمن آباد پولیس نے سکول کے پرنسپل قاری عبد الودود سمیت تین ملزمان کو گرفتار کیا ہے (فوٹو: لاہور پولیس)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں پولیس نے ایک 10 سالہ بچے کو تشدد کا نشانہ بنانے پر ایک مدرسے کے پرنسپل سمیت تین افراد کو گرفتار کیا ہے۔
تھانہ سمن آباد میں درج ایف آئی آر کے مطابق 10 سالہ محمد فیضان اقرا روضۃ الأطفال فاؤنڈیشن میں تیسری جماعت کے طالب علم ہیں جنہیں 29 اگست کو مدرسے کے اندر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
محمد فیضان کے والد عامر رشید لودھی کی درخواست پر پولیس نے مقدمہ درج کیا۔
ایف آئی آر کے مندرجات کے مطابق ’محمد فیضان منگل کی صبح ساڑھے سات بجے مدرسے میں گئے تو کلاس شروع ہونے کے بعد تقریباً دس بجے کلاس ٹیچر نے اپنے پاس بلایا اور تھپڑ مارے۔ جس کے بعد انہیں اپنی سیٹ پر دوبارہ بیٹھنے کو کہا۔ وہ سیٹ پر بیٹھا رو رہا تھا کہ اسے ٹیچر نے دوبارہ بلایا پھر تشدد کیا اور پھر گھسیٹتے ہوئے پرنسپل کے کمرے میں لے گیا۔‘
تھانہ سمن آباد میں درج مقدمے کی مزید تفصیل کے مطابق ’تشدد سے محمد فیضان نیم بے ہوش ہو گیا اور اسے پرنسپل قاری عبد الودود نے دونوں ہاتھوں سے اٹھا کر چھت کی طرف پھینکا اور وہ پنکھے میں جا لگا۔‘
بچے کے والد عامر رشید نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’قاری صاحب پہلے تشدد کرتے رہے پھر میرے بیٹے کو چھت والے پنکھے پر دے مارا اور پنکھے کا ایک پر اس کے ماتھے میں پیوست ہو گیا۔‘
’اس کے بعد وہ اسے بے ہوشی کی حالت میں لے کر ہسپتال پہنچے لیکن شیخ زید ہسپتال والوں نے بچے کے والدین کے بغیر اس کا علاج کرنے سے معذرت کر لی۔ جب ان کے پاس کوئی چارہ نہ بنا تو انہوں نے بچے کی ماں کو فون کیا اور بتایا کہ فیضان سیڑھیوں سے گِرا ہے۔‘
عامر رشید بتاتے ہیں کہ ’ہم دونوں میاں بیوی اس کے بعد بھاگ کے ہسپتال پہنچے تو دیکھا کہ بچے کی حالت مزید بگڑ چکی ہے۔ اور پھر شیخ زید ہسپتال والوں نے بھی جواب دے دیا اور ہمیں کہا اسے چلڈرن ہسپتال لے جائیں۔‘
’ہم وہاں پہنچے تو پتا چلا آپریشن ہو گا۔ ایکس سرے اور سی ٹی سکین میں پتا چلا کہ سامنے سے سر کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔ میرے بچے کا میجر آپریشن ہوا جو پانچ سے چھ گھنٹے جاری رہا۔‘
محمد فیضان کے ہوش میں آنے تک ان کے والدین کو اصل کہانی معلوم نہیں تھی۔ فیضان تین دن تک چلڈرن ہسپتال کے آئی سی یو میں بے ہوش رہے۔ ہوش میں آنے کے بعد انہوں نے اپنے والد کو بتایا کہ کیسے اساتذہ نے ان پر تشدد کیا ہے۔

فیضان کے ہوش میں آنے تک ان کے والدین کو اصل کہانی معلوم نہیں تھی (فوٹو: پنجاب پولیس)

پولیس نے درخواست موصول ہوتے ہی واقعے کا مقدمہ درج کر لیا۔
ایس پی اقبال ٹاؤن عثمان ٹیپو نے بتایا کہ ’سمن آباد پولیس ٹیم نے مقدمہ درج کرکے سکول کے پرنسپل قاری عبد الودود سمیت تین ملزمان کو گرفتار کیا ہے۔
گرفتار ہونے والے دیگر دو افراد میں قاری حبیب اور مدرسے کے اکاؤنٹنٹ محمد عظیم ہیں۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق ’نامزد ملزمان کا اس بچے فیضان پر تشدد کرنا ثابت ہوا ہے۔ جب بچے کو اٹھا کر پٹخا گیا تو اسے پنکھا لگنے سے شدید چوٹ آئی۔‘
بچے پر تشدد کے واقعے کے بعد چائلڈ پروٹیکشن بیورو نے بھی واقعے کا نوٹس لیا ہے۔
چئیرپرسن چائلڈ پروٹیکشن بیورو نے بتایا کہ ’ہماری ٹیم متاثرہ بچے اور لواحقین سے رابطے میں ہے اور اب تک بات واضح ہو چکی ہے کہ مدرسے کے اندر استاد نے تشدد کیا۔ اٹھا کر پنکھے کی طرف پھینکنا۔ اس سے تو بچے کی جان بھی جا سکتی تھی۔‘
’کمسن بچوں کو تشدد کا نشانہ بنانے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں۔‘

شیئر: