Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پیپلز پارٹی کا اجلاس: اکثریت نے اپوزیشن میں بیٹھنے کی تجویز دے دی

حکومت سازی کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کے پہلے اجلاس میں پارٹی رہنماؤں کی اکثریت نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے رائے دی ہے کہ پارٹی کو اپوزیشن میں بیٹھنا چاہیے۔ 
پارٹی رہنماؤں نے یہ تجویز بھی دی ہے کہ انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کو حکومت بنانے کی باضابطہ دعوت دینے کا مطالبہ بھی کیا جانا چاہیے۔ 
پیر کو پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری کی زیرصدارت زرداری ہاؤس اسلام آباد میں ہوا۔ 
اجلاس تقریباً چار گھنٹے تک جاری رہا جس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ آج منگل کو بھی یہ اجلاس جاری رکھا جائے گا۔ 
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شیری رحمان، فیصل کریم کنڈی اور شازیہ مری کا کہنا تھا کہ ’اجلاس میں کامیاب امیدواروں کو مبارک باد دینے کے ساتھ ساتھ بہترین انتخابی مہم چلانے پر بلاول بھٹو زرداری، آصف زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اجلاس میں مختلف تجاویز پر غور کیا گیا اور انتخابات میں ہونے والی بے ضابطگیوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا۔ پارٹی نے ایک کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو مختلف سیاسی جماعتوں سے رابطے کرے گی۔‘
’پارٹی فی الحال حکومت میں شامل ہونے یا اپوزیشن میں بیٹھنے کے حوالے سے کسی بھی نتیجے پر نہیں پہنچی اور آج اس معاملے پر مزید غوروخوض کے بعد میڈیا کو فیصلوں سے آگاہ کیا جائے گا۔‘
اجلاس میں شریک ایک پارٹی رہنما نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’جب اس معاملے پر تجاویز مانگی گئیں کہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے مل کر حکومت بنانے کی پیش کش کی گئی ہے تو اس پر پارٹی رہنماؤں کی اکثریت نے مخالفت کی۔‘ 
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر پارٹی کے منشور پر عمل کرنا ہے تو ایسی صورت میں بلاول بھٹو زرداری کا وزیراعظم ہونا ضروری ہے اور اس وقت ہمارے پاس اتنی اکثریت نہیں ہے کہ ہم وزارتِ عظمیٰ کا مطالبہ کر سکیں یا ہمارا مطالبہ مانا جا سکے تو ایسی صورت میں بہترین آپشن یہ ہے کہ پارٹی اپوزیشن میں بیٹھے۔‘ 

ارکان کا کہنا تھا کہ ’اگر بلاول بھٹو کو وزارتِ عظمیٰ نہیں ملتی تو حکومت میں شامل ہونے کا فائدہ نہیں‘ (فوٹو: پی پی پی ایکس اکاؤنٹ)

’پارٹی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اپوزیشن میں بیٹھنے سے سیاسی فائدہ ہوگا جس کے نتیجے میں ہم اگلے انتخابات تک پنجاب میں اپنی پوزیشن بہتر کر سکتے ہیں۔ صوبہ سندھ اور بلوچستان میں حکومت بنا کر وہاں ڈیلیور کریں گے تو پنجاب کے لوگوں کو بھی پیپلز پارٹی کی ضرورت محسوس ہوگی۔‘
ایک اور پارٹی رہنما نے بتایا کہ ’اجلاس میں باضابطہ طور پر یہ تجویز بھی دی گئی کہ پیپلز پارٹی یہ مطالبہ کرے کہ جس جماعت کو پاکستان کے عوام نے مینڈیٹ دیا ہے صدرِ مملکت کی طرف سے اُسے ہی حکومت بنانے کی دعوت دی جائے۔‘ 
پارٹی رہنماؤں کا موقف تھا کہ ’پیپلز پارٹی آئین کی خالق جماعت ہے اور ہمیں ہر حال میں آئین کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ اس لیے عوام نے جس جماعت کو مینڈیٹ دیا ہے اس کے مینڈیٹ کا احترام ہونا چاہیے۔‘ 
اس کے علاوہ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اجلاس جب شروع ہوا تو اس کے آدھے گھنٹے بعد سابق صدر آصف علی زرداری اجلاس چھوڑ کر چلے گئے۔
وہ دو گاڑیوں کے قافلے میں زرداری ہاؤس سے نکلے اور تقریباً ایک گھنٹے بعد واپس آکر اجلاس میں دوبارہ شریک ہوئے۔ اس دوران آصف علی زرداری کہاں موجود تھے اس بارے میں معلوم نہیں ہو سکا۔ 
پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس کا دوسرا دور آج سہ پہر تین بجے دوبارہ زرداری ہاؤس اسلام آباد میں ہوگا۔ 

شیئر: