Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تو اب حل کیا ہے؟ اجمل جامی کا کالم

بلوچستان میں قوم پرست جماعتیں بھی دھاندلی کی شکایت لیے سراپا احتجاج ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
وطن عزیز تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے، جب سے ہوش سنبھالا یہ فرمان ہر سربراہِ مملکت کے ہاں سے بارہا سننے کو ملا، صحافت کا آغاز ہوا تو ادراک ہوا کہ یہ جملہ تقریباً معمول کی کارروائی ہے۔
 گیلانی صاحب کا دور آیا، نازک ترین دور تھا، میاں صاحب آئے تو نازک حالات تھے، کپتان کو باری ملی تو یہی صورت حال تھی، کبھی اندرون خانہ درپیش چیلنجز تو کبھی دشمن ہمسایوں کی وجہ سے نازک دور آتے رہے اور جاتے رہے۔
معمول تھا جس میں کبھی کبھار شدت کم یا زیادہ حسبِ ضرورت محسوس ہوتی رہی، لیکن یقین جانیے جس سیاسی تقسیم اور معاشی ابتری کا اب سامنا ہے اس میں واقعی دل گواہی دیتا ہے کہ صاحب! نازک ترین واقعی وہ ہے جس میں 25 کروڑ پاکستانی اب جی رہے ہیں۔  
روزگار تباہ، بجلی گیس کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں، تاریخ کی بلند ترین مہنگائی نے غریب کا چُولہا ٹھنڈا کر دیا ہے۔ قرضوں میں ڈُوبا وطن عزیز، سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ معاشرتی بگاڑ کا شکار ہے۔
معاشی بدحالی سے دوچار ہے۔ نظام ڈیلیور نہیں کر پا رہا۔ ریاست ان گنت چیلنجز سے نبردآزما ہے۔ سیاست ایک دوسرے کے گریبانوں تک جا پہنچی ہے۔ نوجوان جذبات سے لبریز اور مایوس ہو رہا ہے۔ مزدور کی سِسکیاں نوحوں میں بدل رہی ہیں، اور ہمارے رہ نما۔۔؟ رہ نمائی کے بجائے، سکور سیٹل کرنے میں مسلسل مصروف۔
کوئی چور ہے تو کوئی ہٹ دھرم۔ کسی کو ملک دشمن قرار دیا جاتا ہے تو کوئی حُب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بانٹتا پھرتا ہے۔ کہیں اشتعال ہے تو کہیں دھمال۔ نظم کا ردھم ہی بِگڑ کر رہ گیا ہے۔
سیاسی و غیر سیاسی رویے انتہاپسندی کی جانب پروان چڑھ چُکے۔ کسے فرصت کہ وہ یہ سوچے کہ یہ بیج اگلی کئی دہائیوں تک ایسی فصل اگُلتے رہیں گے جو فہم و فراصت سے عاری ہوگی۔
امید تھی کہ تمام مسائل کا حل چناؤ کے ذریعے ممکن ہو پائے گا لیکن چناؤ کے نتائج نے ہمیں مزید عدم استحکام عطا کیا ہے۔ تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اکثریت اُس کی ہے، اُس کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے، 50 سے 70 سیٹوں پر دھاندلی ہوئی ہے، ملک بھر میں احتجاج ہوگا۔

سندھ میں جی ڈی اے اور پیر پگارو نے بڑا احتجاج کیا اور ایمرجنسی یا مارشل لا کے خدشے کا بھی اظہار کیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

مولانا جو کبھی پی ڈی ایم کے روحِ رواں تھے وہ بھی پھٹ پڑے ہیں، دھاندلی کی شکایت کرتے ہیں، ماضی کے قصے سناتے ہوئے ماضی کی عسکری قیادت کا نام لے رہے ہیں۔ ازلی ابدی دشمن یعنی مولانا اور کپتان کسی ایک نقطے یعنی دھاندلی پر ایک پیج پر ہیں۔
بلوچستان میں قوم پرست جماعتیں اور مولانا ہدایت الرحمان سمیت ہزارہ ڈیموکریٹک والے بھی یہی شکایت لیے سراپا احتجاج ہیں۔ سندھ میں جی ڈی اے اور پیر پگارو نے بڑا احتجاج کیا، ایمرجنسی یا مارشل لا کے خدشے کا اظہار کیا۔
پیپلز پارٹی بھی دھاندلی کی شکایت کر رہی ہے اور تو اور ن لیگی رہنما بھی کئی حلقوں سے یہی راگ الاپ رہے ہیں، میاں جاوید لطیف کی ہی مثال لے لیجیے۔ دنیا بھر کا میڈیا ہمارے چناؤ پر جو تبصرہ کر رہا ہے وہ پڑھ کر سر جُھک رہے ہیں۔
آزاد مبصر بھی مجبور ہیں کہ حرفِ شکایت بلند کریں۔ ایسے میں کیا کوئی ایک سیاسی جماعت ایسی ہے جو نتائج کو برحق اور شفاف قرار دے؟ کبھی الیکشن کمیشن زیرِعتاب تو کبھی عدلیہ سے شکایت، کہیں ریاست موردِالزام تو کہیں نگراں سرکار۔
اداروں کا تحکم باقی نہ روایات کا پاس۔ سیاسی افہام و تفہیم ایسے میں خواب سا بن کر رہ گئی ہے۔ عموماً رہ نماؤں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ بحرانی کیفیت میں رہنمائی کرتے ہوئے راہ نکالتے ہیں اور ہمارے ہاں؟ راہ  نکالنے کے بجائے ایک دُوجے کے لیے مسلسل راہیں بند کی جا رہی ہیں۔

قوم کو جُڑت کی ضرورت ہے لہٰذا نواز شریف، آصف زرداری اور عمران خان کو پہل کرنا ہوگی (فائل فوٹو: قومی اسمبلی ایکس اکاؤنٹ)

ضرورت تھی کی خواجہ سعد رفیق جیسی سیاسی پختگی اور بڑے پن کا مظاہرہ کیا جاتا، ہار کو تسلیم کیا جاتا، جیت پر مبارک باد دی جاتی اور میثاقِ معیشت کے نام پر تمام جماعتیں مل بیٹھ کر آگے بڑھنے کے لیے کچھ بنیادی نکات پر اتفاق رائے کر لیتیں۔
قوم کو سکھ کا سانس ملتا۔ ایک مضبوط اور موثر سرکار کاروبار مملکت سنبھالتی، لیکن ایسا نہ ہوسکا کہ نتائج نے کسی کو بھی واضح اکثریت سے نہیں نوازا۔
اب ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی حل اب بھی باقی ہے؟ تو صاحب! حل تو ہمیشہ دستیاب ہوا کرتے ہیں، مسئلہ نیت اور سوچ کا ہوتا ہے۔ رہ نما اپنی اپنی پوزیشن سے ایک ایک قدم پیچھے ہٹ کر مخالفین کے لیے گنجائش پیدا کریں تو میثاق بھی ممکن ہے اور اتفاق بھی۔
قوم کو جُڑت کی ضرورت ہے تقسیم کی نہیں۔ سیاسی ضد اور ہٹ دھرمی تقسیم کا باعث بنتی ہے جُڑت کا نہیں۔اس کے لیے پہل جناب نواز شریف، جناب زرداری اور جناب عمران خان اور بالخصوص ریاستی بندوبست کو کرنا ہوگی۔
دشمن حملہ آور ہوا تو ہمیشہ تمام سیاسی جماعتیں اختلافات بھلا کر ریاست کے ساتھ مل بیٹھیں۔ ریاست کے ہاتھ مضبوط کیے اور سیاست کو وقتی طور پر دفن کیا۔ قوم متحد ہوئی، فوج لڑی اور دشمن پیچھے ہٹا۔ اب دشمن ابتر معیشت ہے، سیاسی تقسیم ہے، معاشرتی بے چینی ہے۔

عدلیہ کو انتخابی نتائج پر کمیشن بٹھا کر ’ونس فار آل‘ یہ مدعا حل کر دینا چاہیے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

کیا اب ایک نئے اور انتہائی نقصان دہ دشمن کا ادراک کرتے ہوئے ایک بار پھر مل بیٹھا نہیں جا سکتا؟ اگر نہیں تو سوال قیادت کی قیادت سے ہوگا، رہنماؤں کی رہنمائی سے ہوگا۔ فیصلہ میں اور آپ نہیں، تاریخ کرے گی۔
ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی اکثریت درپیش حالات میں وفاقی حکومت لینے سے گریزاں ہے لیکن حالات و واقعات کا ادراک کرتے ہوئے چاہتے نہ چاہتے یہ کڑوی گولی شہباز شریف کے نام پر اُگلنا پڑ رہی ہے۔ کیا شہباز شریف حلف اٹھاتے ہی تحریک انصاف کی قیادت کو مل بیٹھنے کا سندیس دیں گے؟
کیا کپتان چوروں سے بات نہ کرنے کا بیان واپس لیتے ہوئے ملک کی خاطر ایک قدم پیچھے ہٹ کر بات چیت کی گنجائش پیدا کریں گے؟ یاد رہے کہ ان کو دستیاب مینڈیٹ انہیں مسلسل ایسی کسی بھی اپروچ میں انتہائی موثر کُمک پہنچاتا رہے گا۔ فیصلہ ان رہنماؤں نے کرنا ہے کہ اوکھے پینڈے کیسے کاٹنے ہیں۔ اِک دُوجے کے ہاتھ مضبوط کر کے یا باندھ کر۔
عوامی مینڈیٹ کا احترام لازم ہوچکا، عدلیہ کو انتخابی نتائج پر کمیشن بٹھا کر ’ونس فار آل‘ یہ مدعا حل کر دینا چاہیے کہ چناؤ کے ساتھ ہاتھ کہاں اور کیسے ہوتا ہے۔ وگرنہ کل کو کہیں یہ تمام سیاست دان کسی ایک کنٹینر پر اکٹھے ہوں گے یا کنٹینر کے اندر۔

شیئر: