Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہم قافلہ صلہ رحمی لے کر چلے

جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں اضافہ ہو، عمر لمبی ہو یا مرنے کے بعد اس کا ذکر خیر ہو تو اسے چاہئے کہ صلہ رحمی کرے
* * * *عبد المالک مجاہد ۔ریاض* * *
شریعت میں صلہ رحمی کا مفہوم بڑا واضح ہے کہ رشتہ داروں سے قطع تعلقی نہ کی جائے بلکہ رشتوں کو جوڑا جائے۔ رشتہ داروں کے ساتھ میل جول رکھا جائے۔ ان سے وقتاً فوقتاً ملاقاتیں کی جائیں۔گاہے بگاہے ان اعزہ واقارب کی طرف تحائف ارسال کیے جائیں تاکہ فرمان نبوی کے مطابق آپس کی محبت بڑھتی رہے۔ اگر وہ بیمار ہوں تو ان کی بیمار پرسی کی جائے۔ اگر ضرورت مند ہیں تو حتی الامکان ان کی ضرورت کو پورا کیا جائے۔ جب ملاقات ہو تو ہنستے مسکراتے چہرے کے ساتھ کھلے دل سے ان کا استقبال کیا جائے۔ برصغیر میں علمائے کرام جب کسی کا خطبہ نکاح پڑھتے ہیں تو سورۃ النساء کی پہلی آیت کی بطور خاص تلاوت کرتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: }وَاتَّقُوا اللَّہَ الَّذِي تَسَائَ لُونَ بِہٖ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللَّہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیبًا{۔ ’’ اور اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو، بے شک اللہ تعالیٰ تمہاری نگرانی کررہا ہے۔ ‘‘
صلہ رحمی کی اہمیت کو اس طرح سمجھیں کہ قرآن کریم میں ایک دو نہیں بلکہ 4مقامات پر صلہ رحمی کے حوالے سے احکامات دیے گئے ہیں۔ جہاں تک اللہ کے رسولکی سنت کا تعلق ہے تو متعدد احادیث میں اللہ کے رسولنے صلہ رحمی پر زور دیا ہے۔ ایک بڑی مشہور حدیث ہے کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ صلہ رحمی کرے۔ ایک اور حدیث جس میں صلہ رحمی کے فوائد بیان کیے گئے ہیں اللہ کے رسول نے فرمایا: ’’جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں اضافہ ہو، اس کی عمر لمبی ہو یا مرنے کے بعد اس کا ذکر خیر ہو تو اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔ ‘‘
راقم الحروف کی بھی بعض خواہشات رہی ہیں، ان میں اکثر پوری ہو گئی ہیں کچھ باقی ہیں۔ ایک خواہش تھی کہ میں ایک روز قافلہ صلہ رحمی لے کر اپنے اعزہ و اقارب سے ملنے ان کے گھروں میں جاؤں۔ یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ مختلف خواہشات رکھتا ہے۔ وہ ان خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے ،پھر یوں ہوتا ہے کہ بعض خواہشات پوری ہو جاتی ہیں، بعض تشنہ رہ جاتی ہیں۔ سپرا جٹ برادری ہندوستان کی اُن برادریوں میں سے ہے جن کی تاریخ سیکڑوں سال پرانی ہے۔ صدیوں پہلے اس کے جد امجد محمد عارف نے اسلام قبول کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو یہ حج بیت اللہ کے لئے مکہ مکرمہ آئے۔ تاریخ کی بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ یہ بڑے بلند پایہ طبیب تھے۔ اور نگزیب عالمگیر بادشاہ کا علاج بھی کیا۔ وہ اللہ کے حکم سے صحت یاب ہو گیا۔ اصل وطن لالیاں سرگودھا کے قرب و جوار کا علاقہ تھا۔بادشاہ نے ان کی خوب قدر کی۔ کئی دیہات کی زمینیں ان کی نذر کیں۔ بڑے باعزت طریقے سے رخصت کیا اور یہ اپنے وطن واپس آ گئے۔ میرے تایا جان محمد یوسف کیلانیؒ بہت ذہین و فطین اور سمجھدار شخصیت تھے۔ ایک مرتبہ انہیں برادری کا شجرۂ نسب بنانے اور لکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ کئی سال تک وہ اس کام میں لگے رہے، تب جا کر انہوں نے خاندان کا شجرہ نسب شائع کیا۔ ہمارے ایک دور پار کے رشتہ دار تھے۔
ان کا نام یاد نہیں، وہ گھنٹوں اس شجرہ کے حوالے سے تبادلہ خیال کرتے رہتے تھے۔یہ میرے بچپن کا دور تھا، انہوں نے شجرہ نسب ترتیب دینے میں بہت ہی محنت کی۔ بچپن میں ہر سال ہمارا خاندانی میراثی لالیاں سے آیا کرتا تھا۔ عموماً گھر کی چوکھٹ پر کھڑے ہو کر اونچی اونچی آواز میں شجرہ نسب بیان کرتا۔ عرف عام میں اسے ’’پیڑھیاں‘‘ کہا جاتا تھا۔ جب وہ پیڑھیاں پڑھنے سے فارغ ہوتا تو اسے بڑے احترام سے بٹھایا جاتا۔ اچھی تواضع کی جاتی ۔ عموماً اسے کھیس کے ساتھ حسب توفیق پیسے بھی ئیے جاتے تھے۔ اب تو مدت گزر گئی کہ وہ میراثی بھی فوت ہو چکا ہے ۔اس کی اولاد پڑھ لکھ کر نوکری کرنے لگی ہے۔ انہوں نے یہ پیشہ چھوڑ دیا ہے۔ میری اب بھی خواہش ہے کہ کاش! ایسا دوبارہ ہو کہ میںا سکول سے واپس آؤں اور لالیاں سے آنے والا میراثی ہمارے گھر کے دروزاے پر کھڑا ہو کر پیڑھیاں پڑھ رہا ہو۔ تایا جان کے مطابق دکن کا راجہ کرن بہت ساری ہندوستانی اقوام کا باپ تھا۔
ان میں سپرا‘ بسرا ‘ ہنجرا‘ چیمہ ‘ چٹھہ‘ باجوہ ‘ ڈھلوں ‘ گل‘ جنجوعہ وغیرہ شامل ہیں۔ یقینا یہ سارے ہندو تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جیسے جیسے کرم کیا، ان اقوام کے بڑوں نے اسلام قبول کر لیا۔ آج بھی ہندوستان میں مذکورہ اقوام کے ایسے لوگ بستے ہیں جو اسلام کی نعمت سے محروم ہیں۔ میں نے اوپر عرض کیا کہ میری خواہش تھی کہ میں ایک کوسٹر کرائے پر لوں۔ جس میں سپرا رابطہ سوسائٹی کے عہدے داران کو بٹھاؤں۔
ہم لوگ صبح سویرے سفر پر روانہ ہوں اور رات گئے واپس آ جائیں۔ اس دوران جتنے رشتہ داروں سے ملاقات ہو سکے وہ کریں۔ معزز قارئین! میں نے کوئی مہینہ بھر پہلے اس کی پلاننگ شروع کی ۔ میں 3اگست کی صبح ریاض سے لاہور پہنچا اور 3 ہی دن کے بعد برادری کے ٹور کا پروگرام بنا لیا۔ جب برادری کو بتایا کہ ہمارا ایسا پروگرام بن رہا ہے تو انہوں نے بڑی خوشی اور مسرت کا اظہار کیا ۔ ہمارے اس پروگرام کی توثیق برادری کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر حبیب الرحمن کیلانی اور سرپرست برادرم خالد محمود کیلانی نے بھی کر دی۔ پوری برادری میں چرچا ہو گیا۔ برادری کے واٹس ایپ گروپ میں بھی اسی پروگرام کے حوالے سے باتیں ہوتی رہیں۔ 6اگست 2017ء کو اتوار کا دن تھا۔ سپرا رابطہ کے عہدے داران سے گزارش کی گئی تھی کہ وہ صبح 6بجے تک دارالسلام لاہور کے ہیڈ کوارٹر پہنچ جائیں۔ ہر چند کہ چھٹی کا دن تھا ،مگر میں نے دفتر کے چند ملازمین کی ڈیوٹی لگا دی تھی کہ وہ فجر کی نماز کے فورا ًبعد دفتر پہنچ جائیں تاکہ وہ احباب جو صبح سویرے چائے پینے کے عادی ہیں، انہیں روانگی سے پہلے ایک کپ چائے ضرور مل جائے۔ سپرا رابطہ کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر حبیب الرحمن کیلانی اور حافظ عبدالعظیم وقت مقررہ پرآ چکے تھے۔ چائے کا دور ختم ہوا ہی تھا کہ کوسٹر بھی آ گئی۔ ماڈل 2016یا 17ہی ہو گا ۔اہم چیز اس کا کولنگ سسٹم تھا جو اچھے انداز میں کام کر رہا تھا۔ اس قافلہ کی صورت میں نئی نویلی کوسٹر میں ہم 15,14عہدے داران بیٹھ گئے۔ برادرم آصف سپرا کو کوآرڈی نیٹر بنایا گیا ۔ وہ چند گھنٹوں بعد مانیٹر بن گئے۔
سارا راستہ احباب انہیں اس نئے عہدے سے پکارتے رہے۔میرا انتخاب بہت عمدہ رہا، بعد میں ثابت ہوا کہ وہ بڑے اچھے منتظم ہیں۔ میں نے ان کو ریاض سے ہی بتا دیا تھا کہ ہمیں کہاں کہاں جانا اور رکنا ہے۔ یہ ہمارا پہلا تجربہ تھا کہ ہم لوگ’’ قافلۂ صلہ رحمی‘‘ لے کر جا رہے تھے۔ عزیز عکاشہ مجاہد نے2 دن قبل قافلہ صلہ رحمی کے الفاظ پر مشتمل بڑا خوبصورت پوسٹر بنوا لیا تھا۔ ہم نے اسے کوسٹر کے فرنٹ پر چسپاں کر لیا ۔ ڈرائیور کو پہلے سے بتا دیا گیاکیا تھا کہ ہمارا قافلہ رات گئے واپس آئے گا۔ برادرم مولانا عبدالقوی لقمان کو مرشد دینی مقرر کیا گیا۔ انہوں نے ہمیں دعائے سفر پڑھائی۔ بڑا مزا آیا کہ ہم ان کے پیچھے پیچھے دعائے سفر دہرا رہے تھے۔ میں نے گھڑی کو دیکھا میری گھڑی ساڑھے6 بجا رہی تھی ۔
اتوار کا دن ،صبح ساڑھے6 بجے لاہور کے اکثر باسی خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے اس لئے سڑک خالی تھی تاہم راوی کا پل عبور کر کے جب شاہدرہ پہنچے تو سڑکوں پر برائے نام ٹریفک جار ی تھی۔ اس سفر کے آغاز میں قافلے کے شرکاء کو یہ خصوصی ہدایت دی گئی تھی کہ پورے سفر میں کسی بھی حاضر یا غائب شخص کی دل آزاری نہیں کی جائیگی۔ نہ ہی کسی کی غیبت یا چغلی ہو گی۔ ہر ایک کے بارے میں اچھی بات ہی ہو گی۔ راستے میں دینی باتیں کثرت سے ہوں گی تاہم اچھے اور عمدہ لطائف بھی بیان کیے جاسکتے ہیں۔ گزشتہ رات میری زندگی کی اہم راتوں میں سے تھی۔ قافلہ صلہ رحمی کا خواب میں چند ماہ سے دیکھ رہا تھا۔ رات مجھے خوشی سے نیند نہیں آ رہی تھی۔ بار بار تصور میں قافلے کو جاتے دیکھ رہا تھا۔ ہماری برادری کے جو حضرات شاعر ہیں،انہوں نے اپنے اپنے انداز میں اس قافلہ صلہ رحمی کے حوالے سے اشعار کہے تھے۔ پوری سپرابرادری بیدار ہو چکی تھی۔ گزشتہ کئی دنوں سے قافلہ کے بارے میں گفتگو ہو رہی تھی اور پروگرام مرتب کیے جا رہے تھے۔
اگر میں قافلہ میں ایک ایک بھائی کا تعارف کروانے لگوں تو بات لمبی ہو جائے گی۔ مختصرا ًیہ ہے کہ اس قافلہ میں ڈاکٹر حبیب الرحمن کیلانی تھے جو عمر میں ہم سب سے بڑے تھے، مگر جوانوں سے زیادہ تجربہ اور اسپرٹ رکھتے تھے۔ برادرم آصف سپرا کا تعلق دنیا چینل سے ہے۔ وہ 25سال سے زیادہ عرصہ ہوا، مختلف اخبارات میں بطور صحافی کا م کر رہے ہیں۔ موصوف ہمارے سپرا رابطہ ویلفیئر سوسائٹی کے جنرل سیکریٹری بھی ہیں۔ میرے ہم عمر ہیں، کمال کا حافظہ ہے۔کیا مجال ہے کہ لکھتے وقت کسی چیز کو بھول جائیں۔ ان کے دادا جان حافظ عبدالحیی ؒ نابغہ روزگارشخصیت تھے۔ اپنے وقت کے ولی ٔ کامل اور قرآن کریم سے بے حد محبت کرنے والے۔ ہر روز کم و بیش 10 پاروں کی تلاوت کرتے تھے۔ میری اہلیہ نے قرآن حفظ کرنے کی سعادت انہی سے حاصل کی تھی۔
انہوں نے اپنی پوتی کو قرآن کریم کا ترجمہ، تفسیر اور صرف ونحو کے بنیادی اسباق پڑھائے تھے۔ بلاشبہ یہ اپنے دادا کی چہیتی شاگرد تھیں۔قارئین کو سمجھ آ گئی ہو گی کہ میری اہلیہ آصف صاحب کی سگی تایا زاد ہیں۔ آصف صاحب کی ذمہ داری تھی کہ وہ ہر جگہ وقت مقررہ پر پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ جس جگہ پہنچنا ہے انہیں پہلے سے اطلاع دیں گے کہ ہم فلاں وقت پہنچیں گے۔ اگرراقم الحروف کسی جگہ بیٹھ گیا ہو اور وقت زیادہ ہو گیا ہو تو مجھے وقت کا احساس دلا کر قافلہ کو بر وقت روانہ کریں گے۔ لاہور سے گوجرانوالہ شمال کی طرف واقع ہے۔ کوسٹر کے ذریعہ کوئی گھنٹہ سوا گھنٹے کا راستہ ہے۔ یہ وقت ہم نے ایک دوسرے کو خوبصورت واقعات سناتے اور ذاتی تجربات سے آگاہ کرتے ہوئے گزارا۔ ڈاکٹر حبیب الرحمن کیلانی صاحب نے ترنم سے اشعار سنائے ۔ محفل کو گرم کیا ۔ برادرم میجر(ریٹائرڈ ) جمیل الرحمن صاحب قافلہ میں شرکت کے لئے بطور خاص راولپنڈی سے تشریف لائے تھے۔
بڑے ذہین و فطین اور قابل شخصیت ہیں۔ گاہے گاہے وہ ہمیں فوج کی نوکری کے دوران پیش آنے والے واقعات سناتے رہے۔ انہیں بھی بے شمار اشعار زبانی یاد ہیں۔ ہم بڑے محظوظ ہوتے رہے۔ میجرجمیل الرحمن سپرا ایک عظیم باپ کے بیٹے ہیں۔ ان کے والد حافظ نور محمد نہ صرف حافظ قرآن تھے بلکہ بڑے پُرجوش مبلغ بھی تھے ۔بڑے ہی سادہ اور نیک فطرت انسان تھے۔ ہمارے خاندان کے بعض لوگوں نے بتایا کہ وہ بڑے مستجاب الدعوات تھے۔ کتنے ہی لوگ ان سے دعا کروانے کے لئے آتے تھے۔ میجر جمیل فوج سے ریٹائر ہو چکے ہیں، مگر حسب سابق بالکل چاق و چوبند ہیں۔ انکی صحبت میں وقت بڑا اچھا گزرا۔
راقم الحروف کو اسلامی تاریخ کے سیکڑوں واقعات یاد ہیں ۔ سنہریات کا سلسلہ انہی واقعات پر مشتمل ہے۔ اگر اچھے سامعین میسر ہوں تو سنانے والے کو بھی مزا آتا ہے۔ برادرم عبدالوکیل صاحب میرے بچپن کے دوست ہیں۔ ان کا شاعری سے بے حد شغف ہے۔ یہ محترم حافظ عبدالحییؒکے نواسے ہیں۔ ان کے والد مولانا محمد سلیمان کیلانی اپنے زمانے کے نامور خطیب اور مترجم تھے۔ اعلیٰ درجے کے خطاط بھی تھے۔ دوران سفر میں نے محسوس کیا کہ والدین کی خوبیاں اولاد میں جھلکتی ہیں۔ ہم نے ان کے لطائف اور اشعار سے خوب استفادہ کیا۔ برادرم پروفیسر نجیب الرحمن کیلانی نے ساری زندگی کالج میں پڑھایاہے۔ ان کے پاس علم و عمل کا سرمایہ ہے۔ بڑی نپی تلی گفتگو کرتے ہیں، وسیع تجربہ ہے۔ برادری میں بڑی ہر دل عزیز شخصیت ہیں۔ برادری کے ناظم مالیات بھی ہیں۔ ہمیں اندازہ ہی نہ ہوا کہ آصف صاحب نے اعلان کیا کہ ہم تھوڑی دیر میں کھیالی ‘ شاہ پور میں داخل ہونے والے ہیں۔ میرا کھیالی سے تعلق بڑا ہی پرانا ہے۔ ایک وقت تھا جب کھیالی گوجرانوالہ سے متصل بستی تھی۔ ہمارے کتنے ہی رشتہ دار یہاں بستے تھے۔ اب تو کتنے ایسے ہیں جو اللہ کے پاس چلے گئے۔ ایک زمانے میں میرے سسر مولانا محمد سلیم کیلانیؒ یہاں مقیم تھے۔
یہ میری سگی خالہ جان کا گھر تھا۔ بچپن کی کتنی ہی یادیں اس جگہ سے وابستہ ہیں۔میری والدہ محترمہ کی ایک پھوپھی یہاں بیاہی ہوئی تھیں۔ نانی جان میری والدہ اور خالہ جان کو بچپن میں یتیم چھوڑ کر اپنے اللہ کے پاس چلی گئیں تو والدہ کی پھوپھی حمیداں بیگم نے ان کی پرورش کی۔ میری والدہ ان کو پھوپھی جان کہتی تھیں تو ہم بھی ان کو پھوپھی جان کہنے لگے۔ بعض اوقات گرمیوں کی چھٹیوں میں والدہ ہمیں لے کرکھیالی آتیں اور اپنی پھوپھی کے گھربھی قیام کرتیں۔ ہم کھیالی کی گلیوں میں خوب بھاگتے دوڑتے تھے۔ اس طرح کھیالی کے در و دیوار میرے لئے اجنبی نہیں۔ (جاری ہے)

شیئر: