Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اقبال میں فیض

 
 اقبال کا نام تو کرہ¿ ارض اور فضاوں میں گونج رہا ہے، آج احساس ہورہا ہے کہ آدھا سچ کہتا تھا،گزشتہ صدی صرف اقبال ہی نہیں فیض کے نام بھی ہو چکی
 
جاوید اقبال
 
وسطی افریقی جنگل میں کھڑے ایک تعلیمی ادارے کی عمارت میں ہر سنیچر کی سہ پہر ایک بحث کا آغاز ہوتا ۔ جب جبل پور کا پروفیسر راجہ جائس سنگھ جگر مراد آبادی کو 20ویں صدی کا اردو کا عظیم ترین شاعر گردانتا تو اسے بخوبی علم ہوتا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ مراد آباد کا برہمن پروفیسر کرشنا کانت چترویدی، فراق گورکھپوری کے 20ویں صدی کے عظیم ترین شاعر ہونے پر اصرار کرتا تو اسکے ہونٹوں کی جنبش ہی ظاہر کردیتی کہ وہ سچ چھپا رہا ہے اور جب بہار کا ونود مینن مجروح سلطانپوری کے تغزل کو اردو زبان کی روح قرار دیتا تو اسکے الفاظ کا ضعف اسکی آواز کے پردے میں بھی پردہ نہ رکھ سکتا اور پھر جب وہ متعصب ٹولہ میری طرف جواب طلب نظرو ں سے دیکھتا تو میرا مختصر جواب ہوتا”تم لوگ اچھی طرح جانتے ہو کہ 20 ویں صدی کے ماتھے پر کونسا نام جھومر بنا جگمگا رہا ہے۔ میں کچھ نہیں کہوں گا“۔ تو پھر ان کی جانب ایک شرمسار سکوت ہوتا۔ میں اقبال کا نام نہ لیتا۔ اقبال کا نام تو کرہ¿ ارض پر اور فضاوں میں گونج رہا ہے لیکن آج مجھے احساس ہورہا ہے کہ میں آدھا سچ کہتا تھا۔ گزشتہ صدی صرف اقبال کے ہی نہیں فیض کے نام بھی ہو چکی ہے۔ اقبال 9 نومبرکو پیدا ہوئے جبکہ فیض کی تاریخِ پیدائش 20 نومبر ہے سو آج کا دن اقبال اور فیض دونوں کے نام کہ لاہور میں آج ہی فیض امن میلے کا انعقاد بھی ہورہا ہے۔ 
کہیں تو بہر خدا آج ذکر ِیا ر چلے
ہر دور کا ابن آدم زبان کی شعریت، لفظ کی غنائیت، صوتی اوزان اور حرف کے زیر وبم سے روشناس رہا ہے۔ ہومر کی الیاڈ، کالی داس کی مہا بھارت، ملٹن کی فردوس گم گشتہ اور فردوسی کا شاہنامہ آج بھی اس لئے ادب کی انگلی پکڑے اسے راہوں پر ڈالتے ہیں کہ ان چاروں رزمیوں میں انسان کی شجاعت اور اس کی تمنائے جانفروشی کو ردیف و قافیے کے متوازن غنائی پیرائے کا روپ دیا گیا ہے۔ ان وقتوں میں جب تحریر شجر کی سوکھی چھال پر تھی اَساطیری ادب کی تخلیق ہوئی لیکن بعد کی صدیوں نے ابن آ دم کو اپنے ہی ہم نفسوں پر ستمگری کا چلن سکھایا تو ادیب کے سامنے نئے خون آشام تاریک حقائق کو ہ ہائے گراں بنے آن کھڑے ہوئے۔ اساطیر اور غیر مرئی طاقتوں سے دوبدو مقابلوں کے احوال رفت گزشت ہوئے۔ عظمت و حرمت آدم اور خانماں بربادی موضوع ٹھہرے۔ لٹی سوختہ دلی کاخانماں برباد میر ترکِ شہر کرکے خالی ہاتھ لکھنو¿ پہنچا تو مشاعرے میں بلک اٹھا:
کیا بودو باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو!
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلّی کہ ایک شہر تھا عالم میں روزگار
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
لیکن 20 ویں صدی کے برصغیر میں حالات کی نئی صورتگری تھی۔ نئے تقاضے سر اٹھا چکے تھے، سو ایک اقبال تو پیدا ہونا ہی تھا۔ عظمت رفتہ ، گراں خوابی¿ امروز اور نایابی¿ راہ کا رونا تھا۔ اقبال کی فکر نے جھنجھوڑا:
تجھے آباءسے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار وہ کردار تو ثابت وہ سیارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاوں میں تاجِ سرِدارا
پھر ایک اور صورتحال نے جنم لیا۔ اقبال کی زندگی کے آخری ایام میں اس عنصر نے انتہائی شدت سے سراٹھادیا جو 19 ویںصدی کے اواخر کو نپل تھا۔ سرمایہ پرستی، ابن آدم کی بے توقیری، انسانی اقدار کی ناقدری۔ مارکس کے افکار دلوں کو بھانے لگے اور تب شعر نے فیض کی شکل اختیار کرلی۔ گزشتہ صدی فیض کے نام بھی لگی۔ دونوں نے توقیرِ انسان کو متشکل کیا۔ دونوں نے اطوار ِ شاہاںکو رد کیا، دونوں نے انسان کی بے نوائی پر نوائے احتجاج بلند کی۔ اگر اقبال نے کہا:
خداوندا تیرے یہ سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری
تو فیض کے کوہ ِندا سے پکار اٹھی:
دربار میں اک سطوت شاہی کی علامت
درباں کا عصا ہے کہ مصنف کا قلم ہے
جس نور سے ہے شہر کی دیوار درخشاں
یہ خونِ شہیداں ہے کہ ز ر خانہ¿ جم ہے
یہ فرق جو نادار و زردار کے درمیان صدیوں سے چلا آرہا ہے فیض نے تو اس معاشرتی ناہمواری پر بڑی مہارت سے نشتر زنی کی ہے لیکن اقبال نے بھی اسے محسوس کیا اور اس کااظہار کیا۔
اگر اقبال نے ابن آدم کی کم مائیگی پر خالق کائنات کے در پر جادستک دی اور اہل ہوس کے مکرو فریب کے شاکی ہوئے تو فیض نے اسی ستم و فریب کے لامتناعی سلسلے اور انسان کے ہاتھوں اس کے اپنے ہم نفسوں کی تحقیر کو یوں لکھا ہے:
ہاں تلخی¿ ایام ابھی اور بڑھے گی
ہاں اہلِ ستم مشقِ ستم کرتے رہیں گے
اقبال نے اردو شعر میں ایسے جداگانہ اسلوبِ اظہار کی بنیاد رکھی کہ ان کا اتباع بعد کی نسلوں نے کرنا اپنے لئے باعث فخر سمجھا اور پھر ان کے شعر کی لے میں ہر کوئی بہہ گیا یہاں تک کہ فیض بھی اپنا الگ راہ تراشنے کے باوجود متعدد مرتبہ اقبال کے ڈکشن پر بڑی خوبصورتی سے طبع آزمائی کرتے رہے ۔ 
یہ بھی حقیقت ہے، کہ اگر فیض، اقبال کی پیدائش سے ایک ڈیڑھ برس اِدھر یا اُدھر پیدا ہوتے تو اردو ادب کو 2 اقبال میسر ہوتے اور اگر اقبال کی پیدائش فیض کے سنِ ولادت سے تھوڑا اِدھر اُدھر ہوجاتی تو آج اردو ادب اپنے دام میں 2 فیض رکھنے پر ناز کررہا ہوتا۔ (پاکستا ن رائٹرز کلب ریاض کے زیر اہتمام یوم اقبال کی تقریب میں پڑھا گیا)
****** 

شیئر: