Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عام انتخابات کے بعد ایرانی تیل کی سمگلنگ میں 67 فیصد اضافہ، خفیہ ادارے کی رپورٹ

رپورٹ کے مطابق سمگل شدہ ایرانی تیل کا تقریباً 45 فیصد سندھ اور 25 فیصد پنجاب اور خیبر پشتونخوا میں منتقل کیا جاتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے ایک خفیہ ادارے کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک میں ایرانی تیل کی سمگلنگ، جو نگراں دور حکومت میں کریک ڈاؤن کے نتیجے میں آدھی ہوکر رہ گئی تھی، میں دوبارہ 67 فیصد اضافہ ہوگیا ہے ۔
رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے پانچ اضلاع کے چھ زمینی اور سمندری راستوں سے یومیہ 89 لاکھ  لیٹر ایرانی تیل پاکستان سمگل کیا جارہا ہے جس کا 70 فیصد  استعمال ملک کے باقی تین بڑے صوبوں میں ہورہا ہے ۔
اردو نیوز کو حاصل ہونے والی دستاویزات کے مطابق سول حفیہ دارے کی جانب سے 44 صفحات پر مبنی رپورٹ 4 اپریل کو تیار کی گئی تھی  جس میں ایرانی تیل کی سمگلنگ میں ملوث بلوچستان  کے کئی موجودہ ارکان اسمبلی، سابق صوبائی  وزرا اور سیاستدانوں سمیت 105 بڑے سمگلروں،  چاروں صوبوں کے 100 کرپٹ اہلکاروں اور ایرانی تیل کی فروخت میں ملوث 533 غیر قانونی اور غیر لائسنس یافتہ پٹرول پمپس کی نشاندہی کی گئی ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ  ایرانی تیل کی سمگلنگ سے حاصل ہونےوالے آمدنی میں سے کالعدم تنظیمیں بھی حصہ وصول کرتی ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں سالانہ 2 ارب 80 کروڑ لیٹر ایرانی تیل (ڈیزل اور پٹرول) سمگل ہو کر آرہا ہے جس سے قومی خزانے کو کم از کم 227 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔
سمگل شدہ ایرانی تیل کا تقریباً 45 فیصد سندھ اور 25 فیصد پنجاب اور خیبر پشتونخوا میں منتقل کیا جاتا ہے جبکہ باقی بلوچستان میں استعمال ہوتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایرانی تیل کی سمگلنگ مختلف چیک پوسٹوں پر تعینات اہلکاروں کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ روزانہ سینکڑوں آئل ٹینکر لاکھوں لیٹر ایرانی تیل لے کر بلوچستان کے علاقے اوتھل اور لسبیلہ سے کراچی اور سندھ لے جایا جاتا ہے۔
ذرائع کے مطابق اس خفیہ ادارے کی جانب سے سمگلنگ سے متعلق تیار کی گئی یہ تیسری رپورٹ ہے۔ پچھلے سال ستمبر میں سامنے آنے والی  ایک رپورٹ میں بھی ایرانی تیل کے کاروبار میں 29 سیاستدانوں، 90 سرکاری حکام اور 995 پمپس کی نشاندہی کی گئی تھی۔ 
یہ بھی انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستان سٹیٹ آئل (پی ایس او) کی گاڑیاں بھی ایرانی تیل کی سمگلنگ میں استعمال ہوتی ہیں۔ یہ رپورٹ وزیراعظم کے دفتر میں جمع کرائی گئی تھی جس کے بعد نگراں حکومت کے دور میں بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کیا گیا۔
خفیہ ادارے کی تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2023 میں ایرانی تیل  کی پاکستان کے اندر سمگلنگ ایک کروڑ ایک لاکھ لیٹر یومیہ کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی تھی جسے نگراں حکومت میں شروع کیے گئے کریک ڈاؤن کے نتیجے میں کم کرکے 50 لاکھ سے 53 لاکھ لیٹر یومیہ تک نیچے لایا گیا ہے۔ یعنی سمگلنگ تقریباً آدھی رہ گئی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب اور سندھ میں قائم مشترکہ چیک پوسٹوں کی کارکردگی بہتر نہیں۔ (فوٹو: ثنا بلوچ)

ساتھ ہی نئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ عام انتخابات کے بعد ایرانی تیل کی سمگلنگ ایک اندازے کے مطابق دوبارہ یومیہ 89 لاکھ لیٹر یومیہ تک پہنچ گئی ہے۔ یعنی نئی حکومت کے دور میں ایرانی تیل کی سمگلنگ میں 67 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔
بلوچستان کے پانچ زمینی سرحدی راستوں سے 57 فیصد جبکہ گوادر کے واحد سمندری راستے سے ایرانی تیل کی سمگلنگ میں 111 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
نگراں حکومت کے دور میں اکتوبر 2023 میں سمگلنگ کی روک تھام کے لیے ملک بھر میں 54 مشترکہ چیک پوسٹیں قائم کی گئی تھیں۔ ان میں 13 پنجاب، 10 سندھ، 12 خیبر پشتونخوا اور 19 بلوچستان میں ہیں۔ ان مشترکہ چیک پوسٹوں پر اینٹی نار کوٹیکس فورس، ایف بی آرکسٹم، سول آرمڈ فورس اور متعلقہ صوبائی حکومت کے محکموں کے اہلکار تعینات ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب اور سندھ میں قائم مشترکہ چیک پوسٹوں کی کارکردگی بہتر نہیں کیونکہ یہاں سمگل شدہ سامان کی ریکوری نہ ہونے کے برابرہے۔ اسی طرح بلوچستان اور خیبر پشتونخوا میں قائم تقریباً تمام مشترکہ چیک پوسٹوں پر رشوت کا کلچر اور تعینات سکیورٹی عملے کی سمگلروں کے ساتھ ملی بھگت اب بھی جاری ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایرانی سرحد سے ملحقہ بلوچستان کے مکران اور رخشان ڈویژن کے پانچ اضلاع کے  پانچ زمینی راستوں اور ایک سمندری راستہ سمگلنگ کے لیے استعمال ہوتاہے۔ ان میں ضلع چاغی کا راجے، ضلع واشک کا جودر، پنجگور کا جیرک اور چیدگی اور ضلع کیچ (تربت) میں عبدوئی کا زمینی راستہ جبکہ گوادر میں جیونی کے قریب کنٹانی کا واحد سمندری راستہ  شامل ہے۔
دستاویزات میں دی گئی تفصیلات کے مطابق کریک ڈاؤن سے پہلے یعنی 2023  میں ضلع چاغی کے راجے کے راستے سے روزانہ 265 گاڑیوں سے ساڑھے چھ لاکھ لیٹر، واشک کے علاقے جودر کے راستے 425 گاڑیاں ساڑھے 12لاکھ لیٹر، پنجگور کے جیرک سرحد سے 515 گاڑیاں روزانہ 21 لاکھ لیٹر، چیدگی سرحد سے 340 گاڑیاں 7لاکھ 75 ہزار لیٹر اور ضلع کیچ (تربت) میں عبدوئی سرحد سے 625 گاڑیاں روزانہ 28 لاکھ لیٹر، اسی طرح گوادر کے سمندری راستے سے 2700 سے 3000 کشتیاں یومیہ 26 لاکھ لیٹر تیل لاتی تھیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کریک ڈاؤن کے بعد چاغی میں تیل کی سمگلنگ میں یومیہ پچیس ہزار لیٹر، واشک میں اڑھائی لاکھ لیٹر، پنجگور میں یومیہ پندرہ لاکھ لیٹر، تربت میں یومیہ13 لاکھ لیٹر، گوادر میں یومیہ 17 لاکھ لیٹرکی کمی آئی۔

رپورٹ کے مطابق حوالہ ہنڈی کے ذریعے ڈیلرز کو ادائیگی کسی تیسرے ملک میں موصول ہوتی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم  عام انتخابات کے بعد چاغی کے راستے سمگلنگ  میں چار فیصد اضافے کے ساتھ دوبارہ یومیہ ساڑھے چھ لاکھ لیٹر تک پہنچ گئی ہے۔ واشک کے جودر سرحد پر اڑھائی لاکھ لیٹر یعنی 25 فیصد اضافے کے ساتھ یومیہ سوا لاکھ لیٹر جبکہ پنجگور کے جیرک اور چیدگی  سرحد پر سمگلنگ میں 88 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پنجگور کے ان دو سرحدی راستوں سے ایرانی تیل کی یومیہ سمگلنگ 13 لاکھ 25 ہزار لیٹر  سے  بڑھ کر 25 لاکھ لیٹر یومیہ تک پہنچ گئی ہے۔
 اسی طرح کیچ( تربت) کے عبدوئی سرحد سے سمگلنگ میں 73 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پہلے اس راستے سے پندرہ لاکھ لیٹر یومیہ لایا جاتا تھا اب یہاں سے روزانہ  26 لاکھ لیٹر ایرانی تیل پاکستان پہنچتا ہے۔ گوادر کنٹانی سمندری راستے  سے سمگلنگ  میں 111 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پہلے اس راستےسے یومیہ 9 لاکھ لیٹر اب 19لاکھ لیٹر تیل لایا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2 ارب 80 کروڑ لیٹر سمگل شدہ ایرانی تیل میں سے 95 فیصد ٹوکن یا پرچی کے غیر رسمی نظام کے تحت ملک کے اندر لایا جاتا ہے جسے 2021 میں ایف سی اور مقامی انتظامیہ نے بلوچستان کے ایرانی سرحد سے ملحقہ مکران اور رخشان ڈویژن کے اضلاع میں قائم کیا تھا۔
تازہ رپورٹ میں  نئے اعداد و شمار دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ  اس وقت روزانہ  1800 سے 2000  زمباد (ایرانی ساختہ ) گاڑیاں  سرحد پار سے پٹرول اور ڈیزل کی ترسیل کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ ہر ایک گاڑی میں 3200 سے 3400 لیٹر کی گنجائش ہوتی ہے۔ اسی طرح 1200 سے 1300 کشتیاں گوادر کے قریب  کنٹانی  کے سمندری راستے سے پاکستان میں داخل ہورہی ہیں۔ ہر ایک کشتی 1600 سے 2000 لیٹرلے جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی حدود میں لانے کے بعد سمگل شدہ ایرانی تیل گوادر، پنجگور، واشک کے علاقے ماشکیل، چاغی اور کوئٹہ میں زیر زمین بڑی ٹینکوں میں ذخیرہ کیا جاتا ہے جہاں سے انہیں مزید خفیہ ٹینک رکھنے والی گاڑیوں میں  ملک کے باقی حصوں میں سمگل کیا جاتا ہے۔ ان میں مسافر گاڑیاں، ایرانی ساختہ زمباد گاڑیاں، آئل ٹینکر، ٹرک، پک اپ اور ڈمپر شامل ہیں۔
رپورٹ میں ایرانی تیل کی ادائیگی کے لیے استعمال ہونے والے طریقہ کار سے متعلق بتایا گیا ہے کہ بڑی ڈیلز کے لیے امریکی ڈالر میں ادائیگی عام طور پر کسی تیسرے ملک کے ذریعے کی جاتی ہے۔

رپورٹ میں ایرانی تیل کی سمگلنگ کی سماجی اقتصادی تناظر اور دہشت گردی میں بطور مالی معاونت استعمال کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ (فوٹو: بارڈر ٹریڈ یونین فیسک بک)

حوالہ ہنڈی کے ذریعے ڈیلرز کو ادائیگی کسی تیسرے ملک میں موصول ہوتی ہیں۔ رقم کی وصولی کی تصدیق کے بعد ایرانی تیل کی ترسیل کی جاتی ہے۔ اسی طرح رقم بھیجنے کے خواہشمند تارکین وطن کو بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ چھوٹے پیمانے پر کاروبار کے لیے ایرانی سپلائرز کو سرحدوں پر ہی ایرانی کرنسی میں ادائیگیاں کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ تین سے پانچ فیصد ڈیلز میں بارٹر ٹریڈ یعنی اشیا کے بدلے اشیا کا طریقہ  بھی کیا استعمال کیا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایرانی تیل کی سمگلنگ کے لیے ادائیگیوں کے طریقہ کار میں بنیادی طور پر کریڈٹ سسٹم پر انحصار کیا جاتا ہے۔ ایرانی کرنسی  (ریال تمن)لین دین غیر رسمی چینلز یعنی حوالہ ہنڈی کے ذریعے کی جاتی ہے۔  سرحد پر تیل لوڈ کرنے پر ڈرائیور رسید وصول کرتا ہے اس کے بعد ڈرائیور مکران، رخشان اور کوئٹہ میں حوالہ ڈیلرز کو دیتاہے۔ ڈرائیور ڈیلر سے تصدیقی رسید لے کر  سرحد پر تیل فراہم کرنے والے کو بھیج دیتا ہے۔بعض صورتوں میں  نقد ی  اور سونا وغیرہ بھی دائیگیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
رپورٹ میں ایرانی تیل کی سمگلنگ کی سماجی اقتصادی تناظر اور دہشت گردی میں بطور مالی معاونت استعمال کا بھی جائزہ لیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ صوبے میں تقریباً 22 سے 24 لاکھ لوگوں (بلوچستان کی 14 سے 16 فیصد آبادی) کی زندگی کا انحصار ایرانی تیل کی سمگلنگ پر ہے۔ زیادہ تر دہشت گردی سے متاثرہ جنوبی بلوچستان کے بلوچ اس کاروبار سے منسلک ہیں جن کے پاس معاشی مواقع بہت کم ہیں۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بلوچستان میں عسکریت پسند گروہ خاص طور پر مکران ڈویژن (گوادر، کیچ ، پنجگور) رخشان ڈویژن ( چاغی، واشک، خاران، نوشکی) میں ایرانی تیل کی سمگلنگ سے حاصل ہونےوالے منافع سے حصہ وصول کرتے ہیں۔  سرحدی علاقوں میں کالعدم بلوچ مسلح تنظیموں بلوچ لبریشن فرنٹ، بلوچ لبریشن آرمی ، براس وغیرہ کے تیل کی سمگلنگ سے بلواسطہ تعلق ہونے کا شبہ ظاہر کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قانونی جواز نہ رکھنے  والا ٹوکن سسٹم  ایرانی تیل کی وسیع پیمانے پر سمگلنگ کی جڑ بن چکا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 2 ارب 80 کروڑ لیٹر سمگل شدہ ایرانی تیل میں سے 95 فیصد ٹوکن یا پرچی کے غیر رسمی نظام کے تحت ملک کے اندر لایا جاتا ہے۔ (فوٹو: بارڈر ٹریڈ یونین فیسک بک)

اس نظام میں موجود خامیوں سے مقامی سیاستدان، سمگلر، متعلقہ ضلعی انتظامیہ اور سکیورٹی اداروں کے اہلکار فائدہ اٹھاتے ہیں۔ حساس ادارے نے اس برائی کی  روک تھام کے لیے ذمہ دار تمام اداروں کو اپنی اپنی صفوں میں کالی بھیڑوں کی شناخت کے لیے اندرونی نگرانی بڑھانے، سخت قوانین متعارف کرانے اور سزائیں بڑھانے پر زور دیا ہے۔
رپورٹ میں فوری اور بلاتخصیص اقدامات پر زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ  ایرانی تیل کی سمگلنگ سے محصولات، زر مبادلہ  اور ریاست کے رٹ کو نقصان کی صورت میں  ملک کو دوہرے خطرات کا سامنا ہے۔  حساس ادارے نے اپنی تجاویز میں مشترکہ چیک پوسٹوں پر تعینات افسران اور اہلکاروں  کی تعیناتی کے لیے روٹیشن پالیسی  اپنانے ، سیکورٹی کلیئرنس کے بعد تعیناتی اور وقتاً فوقتاً جانچ پڑتا ل اور تمام مشترکہ چیک پوسٹوں کی براہ راست نگرانی کے لیے اعلیٰ معیار کے کیمروں کی تنصیب کی تجویز دی ہے ۔
رپورٹ کے دوسرے حصے میں ایرانی تیل میں ملوث 105 سمگلروں کے نام، شناختی کارڈ، موبائل نمبر اور پتہ سمیت دیگر تفصیلات بھی درج کی گئی ہیں۔ان میں 59 کا تعلق بلوچستان، 26 کا پنجاب،12 کا سندھ اور8 کا تعلق خیبر پشتونخوا سے بتایا گیا ہے۔پنجاب کے ضلع شیخوپورہ کے7، رحیم یار خان کے 6 سرگودھا کے 4، ڈیرہ غازی خان اوربھکر کے دو دو ، ملتان اور میانوالی کے ایک ایک سمگلر کی تفصیلات دی گئی ہیں۔سندھ میں سکھر، خیر پور ، گھوٹکی ، شکار پو رکے سمگلروں کے نام بتائے گئے ہیں۔ اسی طرح  خیبر پشتونخوا میں ڈیرہ اسماعیل خان کے آٹھ بڑے سمگلروں کی تفصیلات دی گئی ہیں۔
بلوچستان کے 14 اضلاع کوئٹہ، پنجگور، کیچ، گوادر، اواران، جعفرآباد، نصیرآباد، جھل مگسی، لورالائی ،قلات،  مستونگ، واشک، کچھی اور خضدار کے سمگلروں کی نشاندہی کی گئی ہے۔

رپورٹ کے دوسرے حصے میں ایرانی تیل میں ملوث 105 سمگلروں کے نام، شناختی کارڈ، موبائل نمبر اور پتہ سمیت دیگر تفصیلات بھی درج کی گئی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کئی سیاستدان بھی ایرانی تیل کی سمگلنگ میں ملوث ہیں ان میں پنجگور سے تعلق رکھنے والے بلوچستان اسمبلی کے رکن سابق صوبائی وزیر اسد بلوچ، کیچ سے تعلق رکھنے والے سابق صوبائی وزیرلالہ رشید بلوچ، گوادر سے تعلق رکھنے والے سابق صوبائی وزیر حمل کلمتی اور ان کے کزن ارشد کلمتی، سابق وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کے بھائی جمیل بزنجو، نصیرآباد سے تعلق رکھنے والے سابق صوبائی وزیر محمد خان لہڑی کے بھائی آصف لہڑی، شوکت بنگلزئی، نبی بخش پرکانی، معروف ٹرانسپورٹر حشمت لہڑی، نور احمد بنگلزئی، مولا داد رہیجہ وغیرہ شامل ہیں۔

رپورٹ میں  سمگلنگ میں ملوث 100کرپٹ اہلکاروں کی بھی شناخت کی گئی ہے جن میں 72 کا تعلق بلوچستان کے مستونگ، قلعہ عبداللہ، کوئٹہ، پشین، ژوب، شیرانی، لورالائی، سبی، نصیرآباد، کچھی، اوستہ محمد، ڈیرہ بگٹی، جعفرآباد، سوراب، قلات، خضدار، لسبیلہ، حب، نوشکی کے اضلاع سے ہے۔ 15 کا پنجاب کے علاقوں ملتان، ڈیرہ غازی خان، راجن پور، میانوالی، بھکر، ساہیوال، 7 کا سندھ  کے سکھر، جیکب آباداور 6 کا تعلق  خیبر پشتونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے۔

شیئر: