لینا الخطیب ۔ الشرق الاوسط
جب سے امریکی صدر ٹرمپ نے دوما میں کیمیائی اسلحہ کے استعمال پر سرزنش کے طور پر شام پر حملے کی بابت ٹویٹ کیا تھا، تب سے پوری دنیا کو ٹرمپ کے اس دعوے کے عملی جامہ پہننے کا انتظار ہونے لگاتھا۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ مغربی دنیا کی جانب سے بشار الاسد حکومت کے خلاف فوجی کارروائی شام کے تنازع کا حل نہیں۔ حل کا حصہ بھی نہیں البتہ دنیا کی واحد بڑی طاقت کی حیثیت سے امریکہ کی جانب سے اس قسم کا اعلان سیاسی عزم کا اظہار تھا ۔بحران کے حل میں اس عزم کی اشد ضرورت تھی اور ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ تنہا فوجی کارروائی شامی تنازع کا حل نہیں ہوسکتی۔ بشار الاسد کی حامی افواج اور اپوزیشن فورس کا وجود 7سالہ کشمکش کے بعد یہ پیغام دے رہا ہے کہ شام کی جنگ میں کوئی بھی فریق طاقت کے بل پر فتح یاب نہیں ہوسکتا۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ شامی کشمکش کے خاتمے کیلئے کچھ بھی کرنے کا وقت لد چکا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مغربی دنیا کے بعض عناصر اب اس نظریہ کو ہوا دینے لگے ہیں کہ اب جبکہ شامی حکومت اپوزیشن کے قبضے سے متعدد علاقے آزاد کراچکی ہے اور اپوزیشن کی عسکری طاقت کمزور پڑنے لگی ہے،ایسے عالم میں بہتر یہی ہوگا کہ بشار الاسد کو اقتدار کا مزید موقع مہیا کردیا جائے۔
شام سے متعلق جو کچھ کیا جاسکتا ہے اِس حوالے سے میں یہی کہوں گی کہ گزشتہ 7 برس میں کافی کچھ بدل چکا ہے۔ شامی المیہ پہلے بحران تھا پھر جنگ میں تبدیل ہوگیا۔ موثر عالمی سفارتکاری کے ذریعے شامی نظام حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جاسکتا تھا مگر ایسا بوجوہ نہیں ہوا۔ آگے چل کر بشار الاسد نے اس شاہراہ پر چلنا شروع کردیا جسے لیبیا کے معمر القذافی نے اختیار کیا تھا۔ انہوں نے نظام ِ حکومت کی مخالفت میں احتجاج کرنے والو ںکے ساتھ آہنی پنجہ استعمال کیاتھا۔ روس اور ایران نے بشار الاسد کا بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا۔
امریکہ کے سابق صدر باراک اوباما نے 2013ءمیں کیمیائی اسلحہ کے استعمال کی صور ت میں بشار الاسد کو طاقت کے استعمال کی دھمکی دی تھی لیکن انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا جس سے خاص طور پر امریکہ اور عام طور پر مغرب کا اعتبار کمزور پڑ گیا۔
بہتر ہوگا کہ امریکہ اور مغربی ممالک بحران کے واحد حل کے طور پر نہیں بلکہ روس پر ضروری دباﺅ بنانے کیلئے اس وقت تک حملے جاری رکھیں تاوقتیکہ بشار االاسد ٹھوس مذاکرات پر راضی نہ ہوجائیں۔ٹھوس مذاکرات پر آستانہ آپریشن سوچی مذاکرات کی موت کے مترادف ہوگا۔اسکا مطلب جنیوا مذاکرات کے دوران روس کی فنکاری سے دستبرداری کی صورت میں بھی برآمد ہوگا۔ روس کو یہ احساس دلانا ہوگا کہ امریکہ کے اہم اتحادی برطانیہ، فرانس اور سعودی عرب ایک صفحہ پر ہیں۔ اس احساس کے آتے ہی روس منفرد نوعیت کے حل کے حوالے سے اپنا کردارا دا کرنے کی طرف گامزن ہوسکے گا۔
یہ بات ہمیں فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ کیمیائی اسلحہ اصل مسئلہ نہیں ۔ اصل مسئلہ تو اقتدار پر قابض بشار الاسد کا نظام حکومت ہے۔ یہی نظام ہے جو کیمیائی اسلحہ استعمال کررہا ہے۔ یہی نظا م ہے جو عوام پر جبر و تشدد کرکے انہیں گھر بار چھوڑ کر جیلوں میں جانے اور ظلم و ستم سہنے پر آمادہ کئے ہوئے ہے۔ یہی نظام ہے جو اپنے یہاں خود کے تحفظ کےلئے ایران ، روس اور دہشتگرد تنظیموں کی میزبانی کررہا ہے۔
کشمکش کا حل موجود ہے۔ درمیانہ حل نکالا جاسکتا ہے۔ عبوری حکومت قائم ہو۔ اس میں بشار الاسد کے کیمپ اور اس کے مختلف کیمپوں کے نمائندے موجود ہوں۔ پوری توجہ مستقبل پر ہو ۔ سیاسی حکمت عملی کے ساتھ فوجی کارروائی کا ڈنڈا بھی دکھایا جاتا رہے۔
شام میں اُس وقت تک امن قائم نہیں ہوسکتا تاوقتیکہ بشار الاسد برسراقتدار ہوں۔ جب تک وہ اقتدار میں رہیں گے انکی طرف سے کئے جانے والے مظالم لوگوں کو احتجاج پر آمادہ کرتے رہیں گے۔ گزشتہ 7برسوں کے دوران بشار الاسد کے تصرفات کی وجہ سے اپوزیشن کا دائرہ بھی وسیع ہوا ہے اور انکے رویئے میں شدت بھی آئی ہے۔ اس صورتحال کی تبدیلی ایسی صورت میں قطعا© ً ممکن نہیں ہوگی جب بشار الاسد کی حکومت میں شامل لوگ فتح یاب ہوں ۔ تاریخ یہی بتاتی ہے۔ آمر 24گھنٹے کے اندر جلاد سے اصلاح پسند شخصیت میں کبھی تبدیل نہ ہوا اورنہ ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭