Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’مؤدب بے عزتی‘‘

***شہزاد اعظم***
یہ دنیا ہے، یہاں ہر قسم  کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ان میں کچھ اچھے ہیں تو کچھ بہت ہی اچھے ، کچھ برے ہیں تو کچھ بہت ہی برے ،کچھ درمیانے ہیں تو کچھ بالکل ہی درمیانے ۔ یہ سلسلہ رکنے والا نہیں۔ اگر ہم ہر قسم کی ایک ایک مثال بیان کرنا شروع کر دیں تو یہ کالم کئی ’’برس طویل ‘‘ہوجائے گا اور کسی بھی چیز کی زیادتی یا کثرت اچھی نہیں ہوتی۔ اس سے اجتناب کرنا چاہئے ۔ ہم اس ہدایت پر عمل ضرور کریں گے کیونکہ یہ ہمیں نہ صرف مس شکیلہ سے عطا ہوئی ہے بلکہ ہمارے درجنوں ناپسندیدہ اساتذہ نے بھی ہمیں یہی کچھ کہا ہے ۔
اسی دنیا میں بعض لوگ عجیب ہوتے ہیں اور بعض بہت ہی عجیب، بعض لوگ غریب ہوتے ہیں اور بعض بہت ہی غریب جبکہ بعض لوگ عجیب و غریب ہوتے ہیں۔دکھ کی بات یہ ہے کہ خواہ وہ طبابت ہو، صحافت ہو، کھیل ہو، جیل ہو، سپاہ گری یا پولیس ہو، درس ہو یا تدریس ہو، ہر شعبے مذکورہ تمام اقسام کے لوگوں کا کم از کم ایک ایک نمونہ ضرور موجود ہوتا ہے۔اپنی اس صداقت کی گواہی دینے کیلئے ہم ایک حقیقی واقعہ بیان کررہے ہیں۔ہوا یوں کہ ہم کراچی میں ایک اخبار کے دفتر میں ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مصروف تھے۔ طویل میز کے اطراف کرسیوں پر قریباً25افراد اور بھی تھے جو اپنے فرائض بھی انجام دے رہے تھے۔ ہمارے سامنے والی نشست پر ایک صاحب تشریف فرما ہوا کرتے تھے جنہیں ان کے احباب اور بہی خواہ ’’چاچڑ‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ ان کا انداز یہ تھا کہ وہ اپنی 8گھنٹے کی ڈیوٹی کے دوران کم از کم 5گھنٹے 45منٹ لطیفہ گوئی ، قہقہہ بازی،جملہ سازی اور دشنام طرازی میں بسر کرتے تھے۔ جب وہ لطیفہ سناتے تو دوسرا ہنسے نہ ہنسے وہ خود منہ پھاڑ کر قہقہہ بکھیرتے تھے ، یہی نہیں بلکہ وہ اس قہقہے کی ابتداء اور انتہاء کے علاوہ گاہے درمیان میں بھی میز پر انتہائی زور سے ہاتھ مارتے تھے۔چاچڑ کی لطیفہ گوئی کے دوران پیدا ہونے وا لی صوتی آلودگی سے آگہی کیلئے ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ اگر کوئی شخص ’’کوما‘‘ میں چلا گیا ہو، تمام تر کوششوں کے باوجود اسے ہوش نہ آ رہا ہو تو ہمیں یقین ہے کہ اگر اسے اس بزم چاچڑ میں لے آیا جائے تو وہ اس شور شرابے کے باعث ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے گا۔بہر حال ایک روز دفتر میں چاچڑ کی ’’لطیفہ ماری ‘‘کے دوران ہمیں امریکہ سے ایک دوست کا فون آگیا، اس نے کہا کہ دفتر میں اس قدر شور ، کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ یہ کون ناہنجار ہے ۔ ہم نے کہا یہ چاچڑ ہیں اور یہ وہ ہستی ہیں جو ناقابل اصلاح ہیں۔ دوست نے انتہائی ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے ’’سم اَدر ٹائم‘‘ کہا اور فون رکھ دیا۔کچھ عرصے کے بعد ہم نے دوست کو فون کیا تو وہاں سے بھی ہا ہا کار سنائی دے رہی تھی ۔ ہم نے کہا کہ یہ کیسا شور ہے ، کون ہے ؟ دوست نے کہا یہ ہمارے دفتر کا ’’چاچڑ‘‘ ہے۔آپ یقین جانئے ایسا چاچڑ کم از کم تیسری دنیا کے ممالک کے ہر شعبے میں’’ ببانگ دہل‘‘ پایاجاتا ہے ۔ 
اسی دفتر میں خدمات کی انجام دہی کے دوران ایک ایسی ہستی سے بھی آمنا سامنا ہوا جو اس سے قبل ہم نے کہیں نہیں دیکھی تھی۔ ہوا یوں کہ ہم حسب معمول چاچڑ کے سامنے والی کرسی پر براجمان اپنے کام میں مشغول تھے کہ فون کی گھنٹی بجی ۔ ہم نے فون اٹھایا تو آواز آئی ’’اڑے آپ  اخبار کے ’’سٹی ‘‘ شعبے سے بول رہے ہو ناں؟ ہم نے کہا جی ہاں، فرمانے لگے آپ نیچے آجائیں یا میرے کو اوپر آنے کی’’ زحمت‘‘ دے دیں۔ ہم نے کہا کہ آپ رہنے دیں، ہم خود ہی نیچے گئے، ’’ملاقاتی‘‘ نے ہمیں بھانپ لیا اور لپک کر مصافحہ کیا۔ کہنے لگا: میں فلاں سیاسی پارٹی سے ہوں، کھاپڑ کے نام سے معروف ہوں۔ ہمارے سندھ کے پارٹی صدر نے آپ سے ملاقات کیلئے بھیجا ہے ۔ وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں، انہوں نے کہا ہے ہوٹل آپ بتا دیں، ناشتہ میری طرف سے ہوگا۔ ذرا بیٹھیں گے ، کچھ معاملات ’’ڈسکس‘‘ کریں گے۔ ہم نے کہا کہ ہم رات کو 3بجے گھر جاتے ہیں۔ سوتے سوتے صبح ہو جاتی ہے۔ ایسے میں ناشتے کیلئے 9بجے اٹھنا مشکل ہے ۔ یہ سن کر کھاپڑ نے ذرا پینترہ بدلا۔ کہنے لگے کہ :
’’اڑے او ! ہمارا بات سنو۔ میں آپ کو بھائی بھائی ، بڑے صاب اور جناب جناب کہہ رہا ہوں، پاگل نہیں ہوں، اس لئے بول رہا ہوں کیونکہ آپ اس اخبار کے دفتر میں کام کرتے ہو جس میں ہمیں خبر چھپوانی ہے ورنہ ہم جانتا ہوں کہ آپ جیسو ںکی کیا اوقات ہے۔ چند ہزار روپے ماہانہ تنخواہ لے کر سارا سال بونس کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہو اور جب آپ کی کارکردگی کو مایوس کن قرار دے کر آپ کو بونس نہ دینے کا اعلان کیا جاتا ہے تو آپ کودل کا دورہ پڑ جاتا ہے ۔ اگر آپ اس اخبار میں نہ ہوتے تو کھاپڑ آپ کوجھاپڑ رسید کر نے تو آ سکتا تھا، دعوت دینے نہیں۔
ہم عجب مخمصے کا شکار ہوگئے کہ کھاپڑ آخر ہماری عزت کر رہاہے یا بے عزتی کیونکہ کھاپڑ جو کچھ کہہ رہا تھا وہ صد فیصد درست تھا۔ ہم نے دعوت میں جانے کی ہامی بھرنے یا انکار کرنے کی بجائے کھاپڑ سے کہا کہ ہمیں سوچنے کیلئے 2دن کی مہلت دے دیں۔کھاپڑ نے کہا یہ آپ کا مرضی ہے مگر میرے کو لگتا ہے کہ آپ کو عزت راس نہیں آئی ۔بہر حال اس ملاقات کا انجام یہ ہوا کہ ہم اگلے ہی روز استعفیٰ دے کر گھر لوٹ آئے۔
آج اس بات کو 25برس مکمل ہو چکے ہیں۔ اس ربع صدی میں حالات نے کروٹ لے لی ہے اور جب کروٹ لی جاتی ہے تو تمام سمتیں بدل جاتی ہیں، زاویے بدل جاتے ہیں، خیال بدل جاتے ہیں، افعال بدل جاتے ہیں۔ حالات کی کروٹ کے بعد صورتحال ایسی ہے کہ ہم جیسے بے اختیار و مجبور عوام کھاپڑ جیسے ’’بااختیار صاحبان‘‘ سے استفسار کر رہے ہیں، انہیںان کی حیثیت یاد دلا رہے ہیںاور عوام کی تیور دیکھ کر’’ کھاپڑانِ وطن‘‘اسی طرح اپنی راہیں بدل رہے ہیں جیسے ہم 25برس قبل اس ’’کھاپڑ‘‘کی جانب سے ’’مؤدب بے عزتی‘‘ کے بعداستعفیٰ دے کر اس اخباری دفتر کے منظرنامے سے غائب ہو گئے تھے۔ہم اس کروٹ کاذکر اس لئے کر رہے ہیں کیونکہ کل ہی ہمیں کھاپڑ کا فون آیا ، وہ کہہ رہا تھا کہ ’’سائیں!کیا آج بھی 25سال پرانی بات کو دل میں لئے بیٹھے ہو، اڑے مافی دیو ،آئندہ آپ کو اوقات یاد نہیں دلائوں گا ۔
کھاپڑ کی باتیں سننے کے بعدنجانے کیوں ہمیں ایسا احساس ہو رہا ہے کہ اب ’’مؤدب بے عزتی‘‘ جیسے واقعات قصۂ پارینہ ہو چکے ۔2018ء کے انتخابات میں عوام کسی بھی اُمیدوار کو عزت دینے کی بجائے اس امید وار کو مجبور کریں گے کہ وہ عوام کو عزت دے ۔کاش ایسا ہی ہو۔ 
 

شیئر: