Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی کے مسائل بڑھتے ہی جارہے ہیں

***صلاح الدین حیدر، کراچی***
وفاقی حکومت نے وعدے کے مطابق کراچی کی ترقی پر دھیان دینا شروع کردیا ہے اور پاکستان کے سب سے بڑے شہر کو مغربی ممالک کے شہروں کے ساتھ لانے کے لیے نہ صرف کوشاں نظر آتی ہے بلکہ اسکے منصوبوں کی تکمیل کے لیے پہلی قسط 10 ارب روپے گورنر کو بھجوا بھی دیئے ہیں لیکن مسائل اتنے گمبھیر ہیں کہ خاصی خاطر خواہ رقم درکار ہوگی۔ پانی کا سب سے بڑا منصوبہ K-IV جو پچھلے10 سالوں سے کھٹائی میں پڑا ہوا تھا، اس پر کام تو شروع کردیا گیا ہے لیکن اس کی لاگت 25 بلین روپے سے بھی بڑھ کر اب 75 بلین روپے ہوگئی ہے۔ روپے کی قدر میں کمی اور منصوبوں میں دیر ہونے کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔
منصوبے کے ڈائریکٹر اسد زمان نے وزیر اعلیٰ اور کور کمانڈر کی میٹنگ میں بتایا کہ منصوبہ مکمل ہونے پر کراچی کو مزید 650 ملین گیلن پانی روزانہ مہیا ہونے لگے گا۔کراچی میں صاف پانی کی بہت  کمی ہے۔سابق میئر مصطفی کمال کے دور  میں کراچی میں بہت کام ہوا تھالیکن 2010ء کے بعد جب ان کے عہدے کی میعاد ختم ہوگئی تو ہرچیز ٹھپ ہوکر رہ گئی۔ جب عوام کی طرف سے شور مچا تو وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اس کا بیڑا اٹھایا اور شکر ہے کہ اس پر تھوڑا بہت کام ہوا بھی ہے۔ منصوبہ کئی مراحل میں مکمل کیا جائیگا۔ پہلے مرحلے میں 250 ملین گیلن پانی روزانہ کی بنیاد پر شہر کو ملے گا، آہستہ آہستہ اس کی مقدار بڑھتی جائے گی لیکن مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ وفاق تمام تر وعدے وعید کے باوجود کراچی کے لیے رقم فراہم کرنے میںبخل سے کام لے رہا ہے۔کراچی کو کم از کم 50 بلین روپے کی ضرورت ہے۔ عمران خان کی حکومت بھی ہر چیز پر نظر رکھے ہوئے ہے اور منصوبہ گورنر عمران اسماعیل کی سربراہی میں مکمل کروانا چاہتی ہے تاکہ ماضی کی طرح عوام کے پیسے نجی تجوریوں کو بڑھانے میں صرف نہ ہوجائیں۔
سندھ اپنے برے طرز عمل سے دوسرے صوبوں سے بہت پیچھے ہے۔ اس کے لیے دوسرا درد سر تھرپارکر صحرا ہے جہاں بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔وہاں پانی کا نام و نشان تک نہیں۔تھر کے باشندے، عورتیں کیرتھر پر میلوں چل کر بالٹیاں اور کنستر بھر کر پانی حاصل کرنے آتی ہیں، وہ بھی کبھی پانی ہوتا ہے کبھی نہیں، اب تھر کے علاقے کو خشک سالی کا خطرہ ہے۔ بارشیں کم ہوئی ہیں۔سندھ حکومت اور نیشنل مینجمنٹ ڈیزاسٹر اتھارٹی نے مل کر قحط سے نپٹنے کا انتظام ابھی سے کرنا شروع کر دیا  ۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے پارٹی کے ذمہ داروں کو تھر پر توجہ دینے کی ضرورت کا احساس دلایا اور خود بھی جلد ہی تھر کا دورہ کرنے والے ہیں لیکن بارش کی کمی کی وجہ سے سندھ کے 8 اضلاع میں زراعت کو سخت نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔
ادھر سندھ واٹر کمیشن کے چیئرمین سپریم کورٹ کے سابق جج امیر ہانی مسلم نے چینی کمپنی کو نوٹس دیا ہے کہ وہ 15دن کے اندر اپنا کمانڈ اور کنٹرول سسٹم قائم کرلے، بہت وقت ضائع ہو چکا ہے، مزید نہیں ہو سکتا۔
لیکن مسئلہ کراچی کے ساتھ دراصل میئر کراچی اور وزیر اعلیٰ سندھ کے درمیان اقتدار کی جنگ ہے، میئر کراچی وسیم اختر سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت منتخب تو ہو گئے لیکن ان کے ہاتھ پیر کٹے ہوئے ہیں، ان کو صرف اب تک معمولی رقم 50 کروڑ دی گئی ہے جبکہ کراچی میں10 گنا زیادہ رقم کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے لوکل گورنمنٹ سسٹم بنانے کی ہدایت کی ہے۔خیبرپختونخوا اور پنجاب میں تو اس پر کام شروع ہو گیا ہے لیکن سندھ میں تو اپوزیشن کی حکومت ہے، جانے ان کی بات مانی جاتی ہے کہ نہیں۔ بلوچستان میں دوسری صورتحال ہے۔ وہاں کے چیف منسٹر جام کمال نے لوکل گورنمنٹ کا ایک نیا نظام بنانے پر عمل شروع کردیا ہے۔امید ہے اس سے بلوچستان کی حالت سدھرنے میں بہت مدد ملے گی۔

شیئر: