Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آپ بھی لکھیں

انسان آگ سے نہیں بنا بلکہ اسکی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے ۔ انسان کو کسی طرح بھی آتش زاد نہیں کہا جاسکتا۔ جہاں تک علوم قدیم اور جدید کا تعلق ہے دونوں کا کلیہ یہی ہے کہ ہر چیز اپنے اصل کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے تاہم موسمی تغیرات کے نتیجے میں ان جبلی صفات کو بھی رد ہوتے دیکھا جاسکتا ہے۔ اب یہی دیکھیں کہ آگ نہ صرف انسانوں کے لئے بلکہ ہر جاندار کیلئے ایک خطر ناک چیز ہے مگر بھلا ہو موسمی تبدیلیوں کا جب معتدل درجہ حرارت کے حامل انسان بھی جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کیلئے آگ سے پینگیں بڑھاتے ہیں اور ایسی خطرناک آگ سے عافیت کے طلبگار اور خواہاں ہوتے ہیں۔ اب یہی دیکھئے کہ آج کے سردی کے موسم میں جب یخ بستہ ہوائیں ہڈیوں میں بھی سرایت کرنے لگتی ہیں اور زندگی کی رمق برقرارر کھنے والی حرارت جواب دینے لگتی ہے تو انسان اسی آگ کے گرد جمع ہوکر جسم و جاں کے لئے کسب حرارت کرتا نظر آتا ہے۔ 
آتش بازی کے روپ میں پھلجڑیوں ، اناروں اور دوسرے سازو سامان سے خوشیاں بھی دوبالا کی جاتی ہیں۔ یہ بات عام مشاہدے کی ہے کہ ہاتھ تاپنے جیسے اشغال سے بھی جسم کو حرارت پہنچتی ہے۔ زمانہ قدیم میں جب آگ لگانے کا کوئی معقول اور مقبول طریقہ نہیں تھا لوگ پتھروں کو رگڑ کر آگ جلاتے تھے اور اپنی ضروریات پوری کیا کرتے تھے۔ پرانے دور میں آج کے دور میں فرق صر ف یہ ہے کہ اب انسان آگ کے اور بھی استعمال سیکھ لئے ہیں۔ اپنے مخالفین کے دلوں میں سوزش اور جلن پیدا کرکے لطف اندوز ہوتا ہے یا پھر اسکے چولہے ٹھنڈے کرکے اپنی گرمائش قلب کا اہتمام کرتا ہے مگر یہ ساری چیزیں کسب حرارت کے مثبت طریقے قرار دیئے جانے کے قابل نہیں۔آپ کا کیاخیال ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: