Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغانستان میں امن، پاکستان کی خواہش

***سید شکیل احمد***
دوحہ میں فریقین کے درمیان 6 روزہ مذاکرات ہفتہ کو اختتام پذیر ہوئے تھے۔ مذاکرات کے اختتام پر پہلے یہ خبریں آئی تھیں کہ ایک مسودے پر اتفاق ہوگیا ہے جس کے تحت معاہدے کا اعلان ہونے کے 18 ماہ میں امریکی افواج افغانستان سے نکل جائیں گی جبکہ طالبان بھی جنگ بندی پر تیار ہو گئے ہیںلیکن طالبان کے ترجما ن نے حتمی معاہد ے کے بارے میں تردید کر دی اور بتایا کہ مزید مذاکرات فروری میں ہو ں گے لیکن قابل اعتما د ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکر ات 90 فیصد کا میا ب رہے تاہم کا بل انتظامیہ کو معاہد ے کے بارے میں تفصیلا ت سے آگا ہ کرنا ہے اور ان کا نقطہ نظر معلو م کر نا باقی ہے جس کے بعد معاہد ے کو حتمی شکل میں منظوری دی جا سکتی ہے ۔         
  ادھر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکہ اور افغانستان کے درمیان معاہدہ بہت بڑی سفارتی کامیابی ہے ۔انہوں نے ملتان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان، افغان امن مذاکرات کروانے میں کامیاب ہوا۔ پاکستان، طالبان اور امریکہ کو ایک میز پر لے کر آیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک قوم ہیں بھکاری نہیں۔ قومیں صرف پیسوں کے لئے بات نہیں کرتیں۔ پیسہ اس وقت ہمارا مطمح نظر نہیں، ہمیں پیسے نہیں امن درکار ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے پاکستان کے مفادات کا سودا نہ ماضی میں کیا، نہ اب کریں گے۔افغانستان کے مستقبل کافیصلہ افغان عوام خود کریں گے ۔افغانستان کے معاملے پرپاکستان نے اپنا کردارادا کر دیا ہے، امن جنگ سے نہیں ہوتا،یہ ہماراموقف رہا ہے ۔دنیا نے ہمارے موقف کی تائید کی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ برطانوی ایوان نمائندگان میں کشمیرپرپاکستان کاموقف رکھوں گا۔انہوں نے کہا کہ امریکی سینیٹر لینڈسے گراہم چند روز قبل پاکستان آئے تھے۔ ان سے پاک، امریکہ تعلقات کے حوالے سے نتیجہ خیز گفتگو ہوئی۔ انہوں نے اتفاق کیا کہ افغانستان میں قیام امن جنگ سے نہیں، مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔آخر امریکہ کو عقل آہی گئی ۔امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں6 روز تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد امن معاہدے کے موجودہ مسودے پر اتفاق نے افغانستان پر 17 برس پہلے مسلط کی جانے والی ایک ایسی جنگ کے خاتمے کے امکانات روشن کر دئیے ہیں جس کی کوئی قابل فہم دلیل کبھی پیش نہیں کی جا سکی۔ دو حہ مذاکرات میں امریکی وفد کی قیادت زلمے خلیل زاد اور طالبان کے وفد کی سربراہی ملا عمر کے قریبی ساتھی عبدالغنی برادر نے کی۔
ابتدائی اطلا ع کے مطابق مجوزہ معاہدے کے مسودے پر اتفاق رائے ہو گیا ہے جس کے تحت تمام غیر ملکی افواج 18 ماہ میں افغانستان سے چلی جائیں گی۔ قیدیوں کا تبادلہ ہوگا جبکہ طالبان رہنماؤں کو دہشت گرد وںکی فہر ست سے نکال کر ان پر عائد سفری پابندیاں ختم کی جائیں گی اور ایک قومی حکومت کے قیام کے لئے مذاکرات ہونگے ۔معاہدے کے تحت فوجی انخلا ء کی صورت میں طالبان نے امریکہ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ داعش والقاعدہ سمیت کسی بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم کو مستقبل میں امریکہ یا کسی دوسرے ملک کے خلاف افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے نہیں دیں گے ۔ادھرطالبان ذرائع کے مطابق غیر ملکی فوجی انخلا ء طالبان قیادت پر پابندی کے خاتمے اور قیدیوں کے تبادلے کے بعد افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کیلئے مذاکرات کئے جائیں گے ۔یہ عبوری حکومت 3 سال کیلئے ہوگی ۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بات چیت میں پیشرفت  اورتوسیع کے باوجود جنگ بندی اور افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات پر طالبان کی آمادگی کی تردید کرتے ہوئے جامع مذاکرات کی ضرورت کا اظہار کیا ۔ امریکہ نے اس معاہد ے کے بارے میں اشرف غنی کی انتظامیہ کو بھی اعتما د میں لینا ہے جن سے مشاورت کی جا ئے گی۔ اس سلسلے میں زلمے خلیل زادا کا بل پہنچ گئے ہیں۔بتایا گیا ہے کہ اگر کوئی غیر متوقع صورتحال پیدا نہ ہو ئی تو امریکہ کے فوجی انخلا پر اتفاق کا باضابطہ اعلان 2دن تک کر دیں گے۔ یہ بلاشبہ ایک بہت خوش آئند پیشرفت ہے لیکن معاملات جس قدر حساس نوعیت کے ہیں، ان کے پیش نظر کوئی حتمی بات کہنا ا بھی ممکن نہیں ۔صورتحال کی نزاکت کی بنا پر تمام فریقوں کو افہام و تفہیم کے اس ماحول کو کسی بھی وجہ سے محفوظ رکھنے کو یقینی بنانا ہوگا ۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو وہ ایک عرصے سے افغانستان میں امن کیلئے طاقت کے بجائے پر امن مذاکرات کا علمبردار ہے اور اس نے طالبان کو باربار مذاکرات پر آمادہ بھی کیا لیکن خود امریکی پالیسی میں دوام اور استحکام نہ ہونے کی وجہ سے یہ کاوشیں کامیاب نہیں ہوسکیں۔صدر ٹرمپ نے بھی اپنے دور کا آغازافغانستان میںجارحانہ انداز سے کیا تھا تاہم اب پہلی بار امریکی انتظامیہ بظاہر پوری یکسوئی کے ساتھ طالبان سے دہشت گرد تنظیم کی بجائے ایک سیاسی طاقت کی حیثیت سے بات کر رہی ہے ۔گویا امر یکہ نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ افغان طالبان دہشت گرد تنظیم نہیں بلکہ وہ ایک سیا سی قوت ہے ۔
ذرائع سے معلو م ہو ا ہے کہ امریکہ نے طالبان سے افغانستان میں امریکی اڈوں کی بات بھی کی تھی جس پر طالبان نے کہا کہ اس کے بدلے افغانستان کو امریکہ میں اڈے قائم کر نے دئیے جائیں جس پر امریکی ٹیم کو چپ لگ گئی ۔ادھر خیر سگالی کے طور پر طالبان نے ہرات میں اپنی قید سے 35افغان سرکاری اہلکاروں کو رہا کر دیا۔ دوسری طرف امریکی نمائندہ زلمے خلیل زاد افغان صدر کو مذاکرات پر اعتماد میں لینے کیلئے کابل پہنچ گئے ۔امریکہ اور طالبان میں مذاکرات کا اگلا دور 25 فروری سے متوقع ہے۔ طالبان کے قریبی حلقوں نے واضح کیا ہے کہ جب تک جنگ بندی نہیں ہوجاتی،طالبان جنگ بندی قبول نہیں کر یں گے ۔اس دوران پاکستان نے بھی مذاکرات میں پیشرفت کا خیر مقدم کیا ہے۔فوجی ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ افغانستان میں امن کوششیں کامیاب ہوں۔ افغان طالبان سیاسی عمل کا حصہ بن کر حکومت میں آئیں تو اس سے خطے میں استحکام آئیگا۔اس طرح داعش اور ٹی ٹی پی جیسی دہشت گرد تنظیموں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
 

شیئر: