Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خواتین اور سعودی عرب کیخلاف تشہیری مہم

عبدالرحمان الراشد۔الشرق الاوسط
    اگر11ملین صارفین سے سعودی عرب میں بہترین سرکاری سروس سے متعلق سوال کیا جائے تو مجھے یقین ہے کہ وہ اس کے جواب میں ’’ابشر‘‘اپلیکیشن کا ہی ذکر کرینگے۔صارفین میں 50لاکھ خواتین بھی شامل ہیں۔ ایسے عالم میں ابشر پر تنقید اور اس حوالے سے ہنگامہ آرائی کا واحد ہدف سیاسی تشہیر کے سوا کچھ اور نہیں۔جو لوگ ابشر کو بنیاد بنا کر سعودی عرب میں خواتین کی بھلائی کے دعوے کررہے ہیں اور فی الوقت سعودی عرب میں خواتین کے مسائل کو بنیاد بنا رہے ہیں ،وہ سیاسی دنگے بازی کررہے ہیں۔میں یہ بات اس لئے بھی کہہ رہا ہوں کیونکہ ان دنوں سعودی خواتین کے احوال و کوائف جس انداز اور جس معیار سے بہتر سے بہتر تر ہورہے ہیں اور انہیں جتنے زیادہ حقوق اور جتنا بڑا رتبہ ان دنوں ملا ہے اور خواتین کے حوالے سے جتنی زیادہ بہتر تبدیلیاں آج کل ہورہی ہیں سعودی عرب کی تاریخ میں ان کی نظیر نہیں ملتی۔میرے کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ مملکت میں خواتین کے حوالے سے قانونی اصلاحات یا ان پر عملدرآمد کی بابت کچھ کرنے کیلئے نہیں رہ گیا ،نہیں ایسا نہیں، میں کہنا صرف یہ چاہتا ہوں کہ حالیہ 3برسوں کے دوران خواتین کے حوالے سے جو کچھ ہوا ہے وہ عظیم الشان ریکارڈ ہے۔ ابھی کرنے کیلئے بہت کچھ باقی بھی ہے۔
    سوال یہ ہے کہ سعودی حکومت پر نکتہ چینی کیلئے خصوصاً خواتین کا موضوع کیوں اچھالا جارہا ہے؟ اس کے بہت سارے اسباب ہیں۔پہلا سبب یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جمہوریت کا نعرہ مغربی صحافت کے ایوانوں میں اپنی چمک دمک کھوچکا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ خطے میں ہونیوالے انتخابات کے دوران عوام نے انتہاپسند دینی یا قومی تنظیموں کے نمائندوں کو منتخب کرکے مغربی دنیا کو مشکل میں ڈال دیا۔ مغربی میڈیا اس وجہ سے بھی جمہوریت کا نعرہ نہیں دے رہا کیونکہ مشرق وسطیٰ میں یہی ان کے مشن کو الٹنے کا باعث بن گیا ہے۔اسلامی سیاسی جماعتیں مغرب میں اپنی چمک دمک کھوچکی ہیں۔ بیشتر مغربی طاقتیں اسلامی سیاسی جماعتوں کی حمایت سے دستبردار ہوچکی ہیں۔انہیں اندازہ ہوگیا ہے کہ یہ جماعتیں مغرب سے کسی اور زبان میں باتیں کرتی ہیں اور مسلم ممالک کے عوام سے کسی اور لہجے میں گفتگو کرتی ہیں۔ یہ نفرت کا پرچار کررہی ہیں۔ ان جماعتوں کا مغربی جمہوریت کے تصور سے کوئی رشتہ ناتہ نہیں۔ایران کی جمہوریت ، سوڈان کی جمہوریت اور غزہ کی جمہوریت نے مغربی دنیا کو یقین دلا دیا ہے کہ اسلامی سیاسی جماعتیں جمہوریت کا طریقہ کار اقتدار کی سیڑھیاں طے کرنے کیلئے استعمال کررہی ہیں۔ اسی تناظر میں مغرب میں موجود اسلامی جماعتوں نے اپنا حربہ تبدیل کرلیا ہے۔ اب انہوں نے خواتین کے حقوق کے دفاع جیسے عوامی مسائل کی سرپرستی شروع کردی ہیں، حالانکہ یہ جماعتیں خواتین کی تحقیر میں پیش پیش ہیں۔جہاں تک سعودی عرب کا تعلق ہے تو یہاں 3برس کے دوران رونما ہونیوالی تبدیلیاں دیکھ کر مغربی ممالک کے سفارتکاروں، صحافیوں اوراسکالرز نے بڑی سنجیدگی سے سعودی عرب میں ’’سماجی انقلاب‘‘کی بابت سوالات کرنے شروع کردیئے ہیں۔ یہ سب کچھ اپریل2016میں وژن2030کے اعلان کے بعد ممکن ہوسکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسی حکومت جس نے اپنے یہاں اتنے بڑے پیمانے پر سماجی تبدیلیاں پیدا کی ہوں خصوصاً خواتین کیلئے بیحد و حساب شعبے کھولے ہوں، وہ خواتین کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کا کوئی جتن کریگی؟ سعودی حکومت خواتین کی کامیابی کو اپنی کامیابی اور سعودی عرب کے مخالفین اس کی ناکامی کو اپنامشن بنائے ہوئے ہیں۔
مزید پڑھیں:- - - -  دنیا کی نظروں کا رخ کدھر؟

شیئر: