Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دباﺅ کی صدائے بازگشت تہران سے بیروت تک

عبدالرحمن الراشد ۔ الشرق الاوسط
لبنانی ”حزب اللہ“ کے رہنما حسن نصر اللہ نے خواتین کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے شکوہ کیا کہ انکی پارٹی کو ”مالی اعانت“ کی قلت کا مسئلہ درپیش ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ناکہ بندی، فاقہ کشی اور غربت سازی کا چکر چلا کر ہمیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ ہمیں صبر و تحمل سے کام لینا ہوگا۔ ہماری اولاد کو والدین سے بھاری اخراجات کی طلب کم کرنا ہوگی۔ حسن نصر اللہ نے خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ فاطمہ الزھرہ رضی اللہ عنہا سے سبق لیں ۔ وہ خود صفائی کیا کرتی تھیں اور کھانا بھی خود ہی تیار کرتی تھیں۔ حسن نصر اللہ کے خطاب میں تواضع اور انکساری کا لہجہ ظاہر کررہا تھا کہ ایرانی کیمپ کی حالت ان دنوں پتلی ہے کیونکہ یہ ہمیشہ فتوحات کی باتیں کیا کرتے اور آزمائش کے عالم میں بھی برتری کا راگ الاپا کرتے تھے۔
ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کا استعفیٰ دینا اور اپنے حکمراں قائدین کیخلاف بیداری کا مظاہرہ ایک اور ہنگامہ خیز منظر نامہ ہے۔ یہ بھی تہران میں بحرانی حالت کا پتہ دے رہا ہے۔ بظاہر تو یہ لگ رہا ہے کہ شدت پسندو ںکے مقابلے میں ظریف نے معرکہ جیت لیا ہے اوروہ جنرل قاسم سلیمانی کو نیچا دکھانے میں کامیاب ہوگئے ہیں تاہم انکا مستقبل بہت زیادہ مشکوک ہے۔ ظریف کو وزارت خارجہ کا قلمدان دوبارہ حوالے کرنا ایک طرح سے ایرانی نظام کی تزئین و آرائش کا عمل ہے کیونکہ انکے استعفے نے اقتدار کے ایرانی ایوانوں میں تفرقہ و تقسیم اجاگر کردیا تھا۔ اس سے یہ دعویٰ بھی مشکوک ہوگیا ہے کہ اس طرح ظریف کو امریکہ کیساتھ ہونے والے ممکنہ مذاکرات کیلئے تیار کرنے کا ڈھونگ رچا گیا ہے۔
ایران اور خطے میں اس کے اتحادی مشکل میں ہیں ۔ اس کے متعدد اسباب ہیں۔ نمایاں ترین یہ ہے کہ اسرائیل نے شام میں ایرانی فوج کو حملے کرکے توڑ ڈالا۔ ایرانی قائدین شام میں فتوحات کے خواب دیکھ رہے تھے۔ اس کےلئے انہوں نے بڑی قربانیاں بھی دی تھیں۔ وہ ستمبر 2018ءتک شام ، عراق اور لبنان کو اپنا سیاسی جغرافیائی حصہ گردان رہے تھے۔امریکہ نے عراق میں کارروائی کرکے ریاستی اداروں پر پاسداران انقلاب کا کنٹرول ختم کرایا اور انہیں سرکاری بجٹ استعمال کرنے سے روک دیا۔ ایران کا قومی بجٹ 111ارب ڈالر سے زیادہ کا ہے۔ امریکہ نے مسلح افواج پر ملیشیاﺅں کے اثر و نفوذ کو بھی لگام لگائی۔ اسرائیل نے شام میں ایرانیوں کا فضائی تعاقب کیا جس کا ایرانی جواب نہیں دے سکے۔ امریکہ کی اقتصادی پابندیوں نے ایران کے حکمرانوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ بائیکاٹ کی امریکی اپیل مسترد کرنے والے ممالک کی کمپنیاں بھی بائیکاٹ پر مجبور ہوگئیں۔ یورپی ممالک، ہندوستان اور چین کی کمپنیاں امریکی پابندیوں کے ڈر سے ایران کے خلاف کھڑی ہوگئیں۔ سوال یہ ہے کہ خامنہ ای کے نظام کے خلاف منظم کارروائی کا نتیجہ کس صورت میں برآمد ہوگا؟
تہران میں سیاسی انتشار اس کا نتیجہ ہے۔ ایران کے مختلف صوبوں اور شہروں میں ہڑتالیں اور مظاہرے بھی اسی کی دین ہیں۔ خواتین سے خطاب میں حسن نصر اللہ کا خطاب بھی اسی کا ثمر ہے۔ جہاں تک جنرل سلیمانی کا یہ دعویٰ کہ وہ ایران کے باہر اپنے اثر و نفوذ کے مراکز میں گھٹنے نہیں ٹیکیں گے، کوئی سودے بازی نہیں کریں گے، تو اس حوالے سے عرض ہے کہ ایران کے سامنے 2مشکل راستے ہیں۔ یا تو ایرانی قائدین ضد کی قیمت مکمل سقوط کی صورت میں ادا کریں اور اپنی انگلیاں چبائیں یا خطے میں مہم جوئی بند کرنے کا سمجھوتہ کریں۔ افغانستان، یمن اور لبنان سمیت ہر جگہ مہم جوئیاں بند کرنے پر راضی ہوجائیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: