Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں ماضی کا قصہ بنتی ’برگد تہذیب‘

پاپ گلوکارہ نازیہ حسن نے اگرچہ اپنے مقبول گانے ’ٹالی تھلے بہہ کے کریے پیار دیا گلاں‘ میں ٹالی  یعنی شیشم کے درخت کو سماجی میل جول سے تعیبر کیا، لیکن اس خطے میں برگد کے درخت سے بھی جڑی ایک تہذیب ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ معدوم ہوتی چلی گئی۔
برصغیر پاک و ہند میں برگد یا بوہڑ کے درخت کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی یہاں بسنے والے انسانوں کی تہذیب اور ارتقا ہے۔ اس درخت نے تاریخ کا مشاہدہ ہی نہیں کیا، بلکہ تاریخ کی تشکیل میں کردار بھی ادا کیا ہے۔
برصغیر میں انگریزوں نے برگد کے درخت پر قصے لکھے اور ان سے بھی پہلے 326 قبل مسیح میں سکندر اعظم اور ان کی فوج نے ان درختوں کے نیچے پڑاو کیا اور ان کی کہانیاں یونانی فلاسفروں اور ماہرین نباتات تک پہنچائیں۔
برگد کو ہندو، بدھ اورجین مذہب کے لوگ مقدس سمجھتے ہیں۔ اسی لیے آج بھی جہاں مندر ہے اس کے پاس کوئی نہ کوئی برگد کا درخت ضرور موجود ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جہاں جہاں سے مہاتما بدھا کا گزر ہوا، وہاں وہاں وہ برگد کے درخت لگاتے چلے گئے۔
ہندووں، بدھ اور جین مذہب میں برگد کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے انڈیا نے اس کو ’قومی درخت‘ قراردیا۔

326 قبل مسیح میں سکندر اعظم اور ان کی فوج نے ان درختوں کے نیچے پڑاو کیا۔

دنیا کا سب سے بڑا برگد بھی انڈیا ہی میں ہے جس کا حجم  4.5 ایکڑ ہے اور دور سے دیکھنے پر وہ ایک چھوٹے سے جنگل کی طرح لگتا ہے۔ 1989 میں اسے گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا گیا۔
ایک ایسا ہی درخت پاکستان میں سرگودھا کے قریب مڈرانجھا کے ایک گاؤں میں بھی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ 3 ایکڑ پرمحیط ہے اور یہ پاکستان کا سب سے بڑا برگد کا درخت ہے۔
ایسے ہی کچھ درخت اسلام آباد اور اس کے اردگرد بھی پائے جاتے ہیں۔
تاریخی حوالوں کے مطابق اسلام آباد میں مارگلہ کی پہاڑیوں میں بھی بدھا نے قیام کیا اور وہاں ان سے منسوب ایک غار بھی ہے۔ اس غار کے قریب سیکٹر ڈی 12 میں بھی ایک ایسا ہی برگد کا درخت ہے۔
کیپٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے ڈائریکٹر ماحولیات غیزوان  شمشاد  نے اردو نیوز کو بتایا کہ یہ 300 سے 500  سال پرانا درخت ہے۔

اسلام آباد کے سیکٹر ڈی 12 میں موجود یہ درخت  300سے 500  سال پرانا ہے۔

اسلام آباد کے مارگلہ روڈ پر ایف 10 سیکٹر کے تقریباً وسط میں بھی ایک برگد کا درخت ہے جس پر لکھا ہے کہ یہ درخت 450 برس پرانا ہے۔
ڈائریکٹر ماحولیات نے درخت کی عمر جانچنے کے طریقہ کار کے حوالے سے بتایا کہ عام طور ایک فارمولا استعمال ہوتا ہے جس کے تحت درخت  کے تنے کے قطر کی پیمائش سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ ہر سال درخت کتنے سینٹی میٹر تک بڑھ رہا ہے۔ جس درخت کی جتنی بڑی کینوپی (چھتری) ہوتی ہے اس کی جڑیں بھی زمین میں اتنے ہی حجم میں پھیلی ہوتی ہیں۔
ان کے مطابق اس درخت کے لمبے عرصے تک زندہ رہنے کی وجہ یہ ہے کہ پرندے اس پر لگنے والا انجیر نما پھل کھاتے ہیں اور جب وہ کہیں اور جا کر بیٹ کرتے ہیں تو وہاں برگد اُگ جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس درخت کی چھتری اس لیے بڑی ہوتی ہے کیونکہ اس کی شاخوں سے جڑیں نکلتی ہیں جو ایک تنے کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور اس طرح یہ درخت پھیلتا چلا جاتا ہے۔
اسلام آباد کے ایک عمر رسیدہ شہری سلیم بنگش نے بتایا کہ ای سیون سیکٹر کے پاس مارگلہ کی پہاڑیوں میں ایک برگد کا درخت تھا تاہم کچھ عرصہ پہلے اس درخت کو قریبی دیہات کے لوگوں نے جلا دیا تھا۔

جس درخت کی جتنی بڑی کینوپی (چھتری) ہوتی ہے اس کی جڑیں بھی زمین میں اتنے ہی حجم میں پھیلی ہوتی ہیں۔

ڈائریکٹر ماحولیات نے کہا کہ سی ڈی اے کی پوری کوشش ہے کہ اسلام آباد کی حدود میں موجود درختوں کی حفاظت کی جائے کیونکہ ان کے ساتھ ایک تاریخ جڑی ہے اور یہ نہ صرف انسانوں کو سایہ دیتے ہیں، بلکہ چرند پرند کے لیے بھی خوراک کا ایک ذریعہ ہیں۔
ان گھنے سایہ دار درختوں نے برصغیر میں ایک باقاعدہ ’برگد تہذیب‘ کو فروغ دیا، جس کے تحت گاوں کے بچے بوڑھے گرمیوں کی دوپہروں میں اس درخت کے نیچے جمع ہوتے اور وقت گزاری کے لیے خوش گپیاں کرتے اور ایک دوسرے کے حالات پوچھتے۔
اکثر دیہات میں برگد کے درخت نہر یا کنویں کے کنارے ہوتے تھے۔ جس کا ٹھنڈا اورمیٹھا پانی پی کر ساری گرمی رفو چکرہو جاتی تھی اور پانچ منٹ سے زیادہ نہاتے رہنے سے شدید گرمی میں بھی ٹھنڈ لگنا شروع ہو جاتی تھی۔
اسی برگد کے درخت کے نیچے گاؤں کے بڑے بوڑھے، بچے اور نوجوان تاش اور اسی نوعیت کی دیگر دیہی کھیلیں کھیلا کرتے تھے اور یہیں حجام لوگوں کی حجامت کرتے اور شیو بناتے۔ گاوں میں بادام کی سردائی بھی یہیں ملتی تھی۔

درخت کی عمر جانچنے کے لیے اس  کے تنے کے قطرکی پیمائش سے اندازہ لگایا جاتا ہے۔

گاوں کے میلوں کا مرکز بھی برگد کا درخت یا اس کا کوئی قریبی میدان ہوتا جہاں کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ لوک موسیقی، بالخصوص پنجاب کے دیہاتوں میں ہیر وارث شاہ پڑھی جاتی۔ کبڈی کے مقابلے ہوتے، کشتیوں کے دنگل ہوتے اور زیادہ وزن اٹھانے کے مظاہرے ہوتے ۔
آج برگد کے درختوں سے نکلنے والے سفید سفوف سے مختلف ادویات اور اجزا بنائے جاتے ہیں لیکن ماضی میں یہ پھٹی پتنگوں اورکاپیوں کتابوں کے اوراق جوڑنے کے کام بھی آیا کرتا تھا۔
برگد کے درختوں سے جڑی ہر گاوں میں کئی دیو مالائی کہانیاں بھی ہوتیں، اور لوگ اس کے تنے کے نیچے مٹی کے دیے بھی جلاتے۔
لیکن موبائل فون، انٹرنیٹ، کیبل ٹی وی، ڈش اینٹینا اور وی سی آر آنے کے بعد یہ ’برگد تہذیب‘ اجڑ گئی ہے۔
شاید پاکستان کے دور دراز دیہاتوں اور انڈیا کے کچھ علاقوں میں برگد آج بھی لوگوں کی زندگیوں کا مرکز ہو، لیکن بہت سے دیہات میں اس کے نشان بھی اب ختم ہو گئے ہیں۔

کسی وقت میں برگد کا درخت گاؤں بھر کی سرگرمیوں کا محور ہوتا تھا۔

ضلع ننکانہ کے گاوں چہورمسلم کے بزرگ چوہدری غلام نبی، جن کی تقریبا تمام عمر برگد کے درخت کے نیچے اور ارد گرد گزری، کہتے ہیں کہ یہ درخت لوگوں کی زندگیوں میں شامل رہتا تھا۔
’اب نہ تو وہ لوگ رہے ہیں اور نہ ہی لوگوں کے پاس مل بیٹھنے کا وقت رہا ہے۔‘
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے غلام نبی نے کہا کہ صرف تیس سے چالیس برس پہلے تک گاؤں کے لوگ روزانہ برگد کے نیچے اکٹھے ہوتے تھے، لیکن اب وہاں صرف وہ اور ان کی عمر کے چند افراد بیٹھتے ہیں۔
’اب برگد کے نیچے ویرانی ڈیرے ڈالے بیٹھتی ہے۔ کیونکہ نئی نسل کو موبائل فون، انٹرنیٹ اور ٹی وی سے فرصت ہی نہیں ملتی۔  وہ لوگ اپنے گھروں میں بند ہو کر رہ گئے ہیں۔‘

شیئر: