Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نائیجیریا سے مکہ تک، افریقی ڈش ’سیریہ‘ نے سعودی دسترخوان پر جگہ بنا لی

کسی زمانے میں یہ ڈش مکہ کے اطراف ہر جگہ مقبول تھی (فوٹو: عرب نیوز)
افریقہ کی انتہائی مقبول ڈش سیریہ جس کی جڑیں نائیجیریا کی روایات میں ملتی ہیں، سعودی عرب میں کلنری کے لینڈ سکیپ پر اپنے لیے جگہ بنا لی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق کسی زمانے میں یہ ڈش مکہ کے پاس پڑوس میں ہر جگہ مقبول تھی جن میں المنصور، الحفایر اور البرنو کے علاقے شامل ہیں۔
لیکن اب سیریہ، یہاں سے نکل کر ایک وسیع منظرنامے پر آ گئی ہے۔ اپنی نقل مکانی، ثقافتی تبادلوں اور مشترکہ ذائقے کی کہانی بیان کرتی ہے۔
روایتی طور پر سیریہ، سیخوں پر پروئے ہوئے بیف سے بنتی ہے جس میں افریقی مسالے استعمال کیے جاتے ہیں اور پھر اسے آگ کے شعلوں پر روسٹ کیا جاتا ہے۔
اس طریقے سے یہ ڈش نہ صرف ذائقے دار بن جاتی ہے بلکہ اس کی مہک لوگوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔
ریاض میں افریقی ریستوران ’افریق‘ کے مالک رضوان فلاتہ کہتے ہیں کہ ’تامیز‘ یا ’افغانی بریڈ‘ بھی ایک مقبول کھانا تھا لہٰذا سیرہ اور افغانی بریڈ کو اکثر اکٹھے کھایا جاتا تھا۔
آپ سیریہ کو اس وقت تک روسٹ کریں جب تک یہ انتہائی گرم نہ ہو جائے۔ پھر آپ اسے گرم افغانی بریڈ کے ساتھ کھائیں‘۔
یہ ڈش الھوسا قبیلے سے چلی ہے جو ایک نسلی گروہ ہے اور شمالی نائیجیریا، جنوبی نائیجر اور اس سے بھی آگے اس قبیلے کے افراد کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔

ثقافتی تبادلوں اور مشترکہ ذائقے کی کہانی بیان کرتی ہے (فوٹو: عرب نیوز)

سعودی عرب کی خاتون لکھاری اور کاروباری خاتون زینب ھوساوی کہتی ہیں ’الھوسا قبیلے سے تعلق میرے لیے فخر کی بات ہے اور مجھے اس بات پر بھی بہت ناز ہوتا ہے جب میں دیکھتی ہوں کہ ہماری روایتی ڈش، الھوسا سے کہیں آگے پہنچ گئی ہے اور مقبول بھی ہے۔ یہ ڈش افریقہ کی کمیونیٹیوں اور سعودی عرب میں بھی بہت پسند کی جاتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ایک روایتی افریقی کچن، متنوع ذائقوں کا خزانہ ہے جس میں گوشت کی ڈشیں، احتیاط سے ٹکڑوں میں کاٹا گیا بیف، گوشت کے دبیز پارچے، سورج کی حرارت میں خشک کیا گیا گوشت اور تازہ بھنے ہوئے مسالے شامل ہیں۔‘
لیکن جب آپ سیریہ کھاتے ہیں تو اس کا کوئی مقابلہ ہی نہیں، خاص طور پر جب آپ ہر ٹکڑے کو ’یاجی‘ میں ڈبوتے ہیں جو سیریہ کے لیے مخصوص تیز مسالوں سے تیار ہوتی ہے۔‘

غیر ملکیوں کی بڑی تعداد بھی سیریہ کا مزا لینے آتی ہے ( فوٹو: عرب نیوز)

خیال کیا جاتا ہے کہ سیریہ کے سعودی عرب میں متعارف ہونے کے پیچھے عازمین حج ہیں جو یہاں اپنی ثقافت اور کھانے کی روایات بھی ساتھ لاتے ہیں۔
رفتہ رفتہ سیریہ مقامی کھانے میں رچ بس گئی اور ذائقوں کا فیوژن بن گیا جو یہاں رہنے والوں کو بہت بھا گیا۔
 سیریہ سعودی عرب تک کیسے پہنچی، اس سوال کا منطقی جواب ہے کہ نقل مکانی کے ذریعے کیونکہ زائرین نے اس ڈش کو مکہ کے کثیرالثقافتی کھانوں میں متعارف کرایا۔
مکہ کو عرصۂ دراز سے ثقافتی دوراہا ہونے کا مقام حاصل ہے اور اسی وجہ سے مکہ کھانے پکانے کے اس تبادلے کے لیے ایک زرخیز زمین کی حیثیت اختیار کر گیا۔

عازمین یہاں اپنی ثقافت اور کھانے کی روایات بھی ساتھ لاتے ہیں۔(فوٹو: عرب نیوز)

لوگوں کو کھانے میں نئی نئی چیزیں ملیں تو انھوں نے نہ صرف خود کو ان کے مطابق ڈھال لیا بلکہ ان ڈشوں کے ساتھ مختلف تجربات بھی کیے اور ان میں تبدیلیاں لائے۔
رضوان فلاتہ پہلے مدینے میں رہتے تھے لیکن 1997 میں ریاض چلے آئے اور ’افریق‘ کا آغاز کیا جہاں وہ سیرہ کے علاوہ دیگر ڈشیں بھی کھانے کے لیے پیش کرتے ہیں۔
افریقی طعام کے روایتی طریقے کے لیے فلاتۃ کا جذبہ ہی ان کے ریستوران کی مقبولیت کی وجہ بنا جہاں نہ صرف مقامی افراد بلکہ غیرملکیوں کی بھی بڑی تعداد سیرہ کا مزہ لینے کے لیے آتی ہے۔

روایتی طور پرسیریہ، سیخوں پر پروئے ہوئے بیف سے بنتی ہے(فوٹو: عرب نیوز)

وہ کہتے ہیں کہ ’سیریہ میں استعمال ہونے والے مسالے بے مثال ہیں اور اس کی تیاری مختلف ہے۔ مقامی لوگ اسے دیکھتے ہیں اور سیکھتے ہیں اور پھر خود اسے بنانا چاہتے ہیں۔‘
ان کے مطابق سیریہ کی طلب ان ہوٹلوں کی طرف سے زیادہ آتی ہے جہاں سیاح اور زائرین ٹھہرے ہوتے ہیں۔
سیریہ کا مغربی افریقہ کی گلیوں سے سعودی عرب میں ڈنر کے ٹیبل تک کا سفر، مکہ کی کھلی فضا کی خبر دیتا ہے اور کھانوں کے ذریعے مملکت جس طرح ثقافتی تنوع کو اپنا رہی ہے اس کے متعلق آگاہ کرتا ہے۔
سیریہ میں آئے دن جدت اور تنوع پیدا ہو رہی ہے اور یہ اس بات کی ایک ’ذائقہ دار‘ یاد دہانی ہے کہ سعودی عرب کے کچن دنیا بھر سے کیسے متاثر ہو رہے ہیں۔

 

شیئر: