Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

منبج شہر جہاں فوجی پرچم گرائے جاتے ہیں 

منبج شہر روسیوں ، ترکوں اور امریکیوں کے زیر اثر3علاقوں کا سنگم بنا ہوا ہے۔ فوٹو الشرق الاوسط
شامی شہر ’منبج‘ کئی برس سے عرب اورعالمی میڈیا کی سرخیوں میں ہے۔ یہاں کئی بار فوجی پرچم لہرائے اور گرائے گئے۔
منبج شہر کی سڑکوں، عمارتوں اور میدانوں نے کئی بارعوامی جلوس کے مناظر دیکھے۔ ان میں خواتین، لڑکیاں، بچے اور چند بوڑھے شامل ہوتے۔ نوجوان دور دور تک نظرنہ آتے۔ آٹھ برس سے برسر پیکار فریق اس شہر کے تقدس کو پامال کررہے ہیں۔
الشرق الاوسط نے شام، امریکہ اور ترکی کے درمیان میدان کار زار بننے والے شہر منبج اور اس میں پیش آنے والے واقعات کا تعارف کراتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ یہ شہر حلب سے 80 کلومیٹر شمال مشرق میں بین الاقوامی شاہراہ پر واقع ہے۔ یہ شاہراہ حلب شہر کو شام کے مشرقی صوبوں الرقہ، دیر الزور اور الحسکہ سے جوڑتی ہے۔
منبج شہر روسیوں، ترکوں اور امریکیوں کے زیر اثر تین علاقوں کا سنگم بنا ہوا ہے۔ 2004 میں یہاں کی آبادی ایک لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ یہاں امریکی اور اتحادی افواج کے اڈے تھے۔2011 کے بعد منبج کی آبادی میں اضافہ ہوا۔ایک اندازے کے مطابق اب اس شہر میں چھ لاکھ کے لگ بھگ افراد بسے ہوئے ہیں۔ آبادی میں اضافہ پناہ گزینوں کا محفوظ مرکز بن جانے کے باعث ہوا۔ بیشتر باشندے سنی عرب ہیں۔ ان کے علاوہ کرد، ترکستانی، ارمن اور شراکس بھی ہیں۔

شام کے سرحدی علاقو ں میں ایک اہم شہر عین عرب بھی ہے۔ فائل فوٹو

منبج شہر کو خانہ جنگیوں نے تباہ و برباد کردیا ہے۔عجیب و غریب شہر ہے۔ یہاں کے باشندے پناہ کی تلاش میں آنے والوں کی ضیافت کرتے ہیں۔ جگہ جگہ چاول ، چینی اور کھانے پینے کی اشیا کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں۔ یہاں عام شہریوں کے شانہ بشانہ فوجی وردی میں ملبوس افراد بھی نظر آتے ہیں۔ یہ یہاں کی روزمرہ زندگی کا منظر نامہ ہے۔
منبج شہر ترکی کے سرحدی علاقے سے 30کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔شامی سرکاری افواج کی آمد پر یہاں کے باشندوں نے موجودہ صدر بشار الاسد زندہ باد کے نعرے لگائے۔
منبج شہر پر آٹھ برس کے دوران کئی برسر پیکار فریقوں نے راج کیا۔ جولائی 2012 کے دوران یہ شہر شامی حکمرانوں کے کنٹرول سے نکل گیا تھا۔ آزاد شامی فوج کے دستوں نے اسے سرکاری کنٹرول سے آزاد کرایا تھا۔
2014 میں منبج شہر شدت پسند تنظیم داعش کے قبضے میں آگیا تھا۔ 15اگست 2016 کو شامی ڈیموکریٹک فورسز نے امریکہ کی زیر قیادت عالمی اتحاد کی مدد سے اسے داعش سے آزاد کرایا اور دو ماہ سے زیادہ عرصے تک گھمسان کے معرکے کے بعد داعشی جنگجوﺅں کو شہر سے مار بھگایا۔
2018 کے شروع میں شامی فوج اور روسی عسکری دستے منبج میں داخل ہوئے۔ انہیں کردوں نے ترک فوجیوں سے درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے اپنی حفاظت کی خاطر طلب کیا تھا۔اس وقت ایک تاریخی واقعہ یہ پیش آیا تھا کہ ترک افواج نے الساجور نہر کے کنارے آٹھ ہزار شامی جنگجوﺅں کو تعینات کرکے شہر پر قبضے کی دھمکی دی تھی تاہم ترکی اور امریکہ کے درمیان افہام و تفہیم کے باعث ترک افواج اپنا وعدہ پورا نہیں کرسکی۔
شام کے شمال مشرقی شہر تل ابیض اور سلوک قصبے پر ترک فوج اور اس کے اتحادیوں کے قبضے کے بعد شام کی سرکاری افواج دوبارہ منبج پہنچ گئیں۔ ان دنوں راس العین سرحدی شہر میں ترکوں کے ساتھ گھمسان کے معرکے چل رہے ہیں۔

 شام کی سرکاری افواج دوبارہ منبج پہنچ گئیں۔ فائل فوٹو

منبج آرمی کونسل کا کہناہے کہ شامی افواج کا دائرہ کار کنٹرول لائن تک محدود ہے۔ ترک فوجی الساجور نہرکے مغربی کنارے پر لشکر انداز ہیں۔ اس دوران تل ابیض شہر کی سڑکوں پر ہو کا عالم ہے۔ شہری گھروں کے دروازے بند کئے بیٹھے ہیں۔یہ لوگ اپنے حامیوں کی آمد کے لمحے گن رہے ہیںجبکہ ترک افواج کا پرچم یہاں کی عمارتوں پر لہرا رہا ہے۔
تل ابیض اسٹراٹیجک شہر ہے یہ الرقہ صوبے کے ماتحت ہے۔ قریب ہی ترک سرحدی چوکی واقع ہے۔یہاں عرب آباد ہیں۔ انہی کی اکثریت ہے۔ ان کے علاوہ کرد، ارمن اور ترکمان بھی شہر میں بسے ہوئے ہیں۔
شام کے سرحدی علاقو ں میں ایک اہم شہر عین عرب بھی ہے جسے کردی ’کوبانی‘ کہتے ہیں۔ یہ الحسکہ کے بعد کرد اکثریت کا تیسرا بڑا شامی شہر ہے۔ یہ حلب سے 160کلو میٹر مشرق میں واقع ہے۔ اس کی آبادی 2004 کی مردم شماری کے حوالے سے 45 ہزار ہے۔ یہ شہر دو جولائی 2014 میں داعش کے بڑے حملے کے بعد عالمی میڈیا کی سرخیوں میں آیا تھا۔

شیئر: