Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ترکی شام میں جنگ بندی کرنے پر راضی‘

ترک وزیر خارجہ میلوت کاوسوگلو نے جنگ بندی کی تصدیق کی ہے۔ فوٹو: پریذیڈنٹ پریس سروس
امریکی نائب صدر مائیک پینس نے کہا ہے کہ ترکی شام میں کردوں کے خلاف کیے جانے والا فوجی آپریشن بند کرنے پر تیار ہے، لیکن اس کی شرط ہے کہ پہلے کرد سیف زون سے نکلیں، جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اگر ترکی جنگ بندی کرتا ہے تو وہ اس پر لگائی جانے والی پابندیاں واپس لے لیں گے۔
ترک وزیر خارجہ میلوت کاوسوگلو نے جنگ بندی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترکی آپریشن کو تھوڑے عرصے کے لیے ملتوی کر رہا ہے تاکہ ’دہشت گرد تنظیم‘ سیف زون سے باہر نکل سکے۔
انہوں نے انقرہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ ہم آپریشن کو ملتوی کر رہے ہیں اسے روک نہیں رہے۔ ہم آپریشن کو اس وقت روکیں گے جب کرد شدت پسند یہ علاقہ خالی کر دیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ یہ سیز فائر نہیں ہے کیونکہ سیز فائر دو قانونی ریاستوں کے درمیان ہوتا ہے۔
امریکی صدر نے ڈیل کا خیر مقدم کرتے ہوئے ترک صدر کا شکریہ ادا کیا ہے۔
اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ترک ہم منصب کو غیر معمولی خط لکھ کر تنبیہ کی تھی کہ وہ بے وقوف نہ بنیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق صدر ٹرمپ نے طیب اردوغان کو یہ خط ترکی کے شمال مشرقی شام پر حملے کے فیصلے کے بعد لکھا تھا جس کی تفصیلات اب منظر عام پر آئی ہیں۔
امریکی وائٹ ہاؤس نے اے ایف پی کو خط کے متن کی تصدیق کی تھی۔
9 اکتوبر کو لکھے گئے خط میں  ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر طیب اردوغان کو کہا کہ شام میں فوجی کاروائی کے اقدام پر تاریخ ان کو ’شیطان‘ کا لقب دے گی۔

ترکی نے 9 اکتوبر کو کرد ملیشیا کے خلاف فوجی کارروائی کا آغاز شام کے شمال مشرقی سرحدی علاقے ’راس العین‘ پر فضائی بمباری سے کیا تھا۔ ترکی نے فوجی  کارروائی امریکی فوج کے علاقے سے انخلا کے فوری بعد کی تھی۔
صدر ٹرمپ نے سفارتی آداب کو نظر انداز کرتے ہوئے صدر اردوغان کو کہا کہ وہ خود کو ہزاروں افراد کے خون کا ذمہ دار نہیں ٹھہروانا چاہیں گے، ’اور نہ ہی میں ترک معیشت کی تباہی کا ذمہ دار بننا چاہتا ہوں۔‘
خط میں صدر ٹرمپ نے ترک معیشت تباہ کرنے کی دھمکی بھی دی۔
ٹرمپ نے طیب اردوغان کو ’ڈیل‘ کی پیشکش بھی کی، کہ ترک صدر اگر کرد سیرین ڈیموکریٹک فورس (ایس ڈی ایف) کے سربراہ مظلوم عابدی سے مذاکرات کریں تو ’بہترین ڈیل‘ ممکن ہو سکتی ہے۔
ترکی نے ایس ڈی ایف کے سربراہ مظلوم عابدی کو کرد ملیشیا ’پی کے کے‘ سے روابط پر ’دہشت گرد‘ قرار دیا ہوا ہے۔

 

ٹرمپ نے لکھا کہ اگر اردوغان کرد ملیشیا کا معاملہ انسانی اقدار کو سامنے رکھتے ہوئے درست طریقے سے حل کریں گے تو تاریخ بھی ان پر مہربان ہو گی۔
لیکن اگر اچھے نتائج نہ ہوئے تو تاریخ ان کو ہمیشہ ’شیطان‘ کے طور پر یاد کرے گی۔
صدر ٹرمپ نے اپنے خط کا اختتام صدر اردوغان کو اس نصیحت کیا کہ وہ سختی نہ کریں اور ’بے وقوف نہ بنیں‘
خط کے آخر میں انہوں نے صدر اردوغان کو لکھا کہ وہ ان کو بعد میں فون کریں گے۔
ترکی کی جانب سے شام پر حملے کرنے پر امریکی حکومت نے ممکنہ طور پر رواں ہفتے میں ترکی پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ترکی پر پابندیوں کے بارے میں امریکی سیکرٹیری خزانہ سٹیون نوچن نے جمعے کو کہا تھا کہ ٹرمپ نے ترکی کو نشانہ بناتے ہوئے ’بہت طاقتور‘ پابندیوں کے احکامات جاری کیے تھے جس پر انتظامیہ ان کی ترکی کو دی جانے والی دھمکی پر عمل کرنے کے لیے تیار تھی۔
خیال رہے کہ ترکی نے بدھ سے شمال مشرقی شام میں کرد ملیشا (وائی پی جی) کے ٹھکانوں پر حملے اس وقت شروع کیے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی افواج کو بارڈر کے علاقوں سے واپس بلانے کے احکامات جاری کیے تھے۔

شیئر: