اسرائیل کی ایرانی ہیکرز کے خلاف ’سائبر ڈوم‘ کی تیاری
اسرائیل کی نیشنل سائبر ڈائریکٹوریٹ کے مطابق غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد اس پر کئی سائبر حملے کیے گئے (فوٹو: اے ایف پی)
اسرائیل کا آئرن ڈوم ڈیفنس سسٹم جہاں راکٹس سے بچاؤ کے لیے کئی حفاظتی تہیں رکھتا ہے وہیں وہ آن لائن حملوں سے محفوظ رہنے کے لیے ’سائبر ڈوم‘ بھی بنا رہا ہے جو خصوصی طور پر بدترین دشمن ایران کے آن لائن حملوں سے بچاؤ کے لیے ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسرائیل کی نیشنل سائبر ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ ایویرام اتسابا کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک خاموش جنگ ہے، ایک ایسے مقابل سے جو دکھائی نہیں دیتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سات اکتوبر سے غزہ میں حماس کے خلاف جنگ کے دوران اسرائیل کو کئی بار ایران اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے سائبر حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اے ایف پی کے ساتھ گفتگو میں انہوں نے حماس اور لبنان کی حزب اللہ طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ جتنا ہو سکے ہیکنگ کی کوشش کرتے ہیں، تاہم وہ ابھی تک کوئی خاص نقصان پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جنگ شروع ہونے سے اب تک آٹھ سو کے قریب حملوں کو ناکام بنایا جا چکا ہے اور ان کا ہدف حکومتی ادارے، فوجی اور سول انفراسٹرکچر تھا۔
’کچھ حملے ناکام نہیں بنائے جا سکے جن میں ہیفا اور سیفید کے ہسپتال پر ہونے والے حملے شامل ہیں اور ان میں مریضوں کا ڈیٹا چرایا گیا۔‘
ان کے بقول ’اگرچہ اسرائیل کے پاس پہلے سے ہی سائبر ڈیفنس سسٹم موجود ہے تاہم وہ مقامی سطح پر ہونے والے اقدامات کے تحت تھا اور جو زیادہ مربوط نہیں تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ پچھلے دو برس کے دوران ڈائریکٹوریٹ ایک ایسے مرکزی سسٹم پر کام کر رہا ہے جو اسرائیل کی سائبر سپیس پر ہونے والے حملوں کو بہتر انداز میں روکنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
تل ابیب میں قائم ڈائریکٹوریٹ وزیراعظم کے اختیارات کے نیچے کام کرتا ہے اور اپنے سٹاف، اعدادوشمار اور عملے کے حوالے سے معلومات ظاہر نہیں کرتا۔
ایویرام اتسابا کا کہنا تھا کہ اسرائیل اپنے متعدد اتحادیوں کے اشتراک میں کام کرتا ہے جن میں امریکہ بھی شامل ہے اور تقریباً تمام ہی ممالک کو سائبر دہشت گردی کا سامنا ہے۔
ان کے مطابق ’ایک نیٹ ورک سے لڑنے کے لیے نیٹ ورک کی ہی ضرورت پڑتی ہے۔‘
نشینل سکیورٹی سٹڈیز کے ایک محقق چک فریلیچ کا کہنا ہے کہ ایران آن لائن جنگ کے حوالے سے بھی ’ایک اہم دشمن‘ ہے۔
’اس کے حملوں کا مقصد انفراسٹرکچر کو تباہ کرنا ہوتا ہے جبکہ انٹیلیجنس کے لیے ڈیٹا حاصل کرنا اور پروپیگنڈے کی غرض سے غلط معلومات پھیلانا بھی ہوتا ہے۔‘
ایران نے سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کا خیرمقدم کیا تھا۔ جس کے نتیجے میں اے ایف پی کے اعدادوشمار کے مطابق ایک ہزار ایک سو 70 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔
فلسطینی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ جواب میں اسرائیل کی جانب سے غزہ میں شروع کیے گئے فوجی آپریشن میں اب تک 34 ہزار پانچ سو 96 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین شامل ہیں۔
اس کے بعد خطے میں کشیدگی بڑھی اور دمشق میں ایرانی قونصلیٹ پر حملے کے جواب میں پہلی بار ایران نے پچھلے مہینے اسرائیل پر سینکڑوں میزائل چلائے۔