Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستانی سرحد کے قریب انڈیا کے توانائی منصوبے

منظوری ملنے کے 18 ماہ بعد انڈیا قابل تجدید توانائی منصوبوں پر کام شروع کر دے گا۔ فوٹو: وکی پیڈیا
انڈیا نے روایتی ایندھن پر انحصار کم کرنے کے لیے قابل تجدید توانائی کے کئی منصوبے شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور توانائی کے ان منصوبوں کا آغاز پاکستان کے ساتھ مغربی سرحد کے قریب کیا جائے گا۔
ملک کی اقتصادی ترقی کی سست روی سے پریشان انڈین حکومت نے تیل اور کوئلے کا استعمال کم کرنے کے لیے گذشتہ تین برس میں اخراجات میں تین گنا اضافہ کر دیا ہے۔
انڈیا کی قابل تجدید توانائی کے سیکرٹری آنند کمار نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’ہم زمین کی فیز ایبلیٹی کا جائزہ لے رہے ہیں اور ہم نے گجرات اور راجستھان میں بجلی کے 30 گیگا واٹ کے منصوبوں کی نشان دہی کی ہے۔‘  

انڈیا توانائی کی 23 فیصد ضروریات قابل تجدید توانائی منصوبوں سے پوری کر رہا ہے۔ فوٹو: وکی پیڈیا

’حکومت نے صحرا کے بنجر علاقوں کو قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کے لیے مختص کیا ہے کیونکہ یہ علاقے دھوپ زیادہ پڑنے اور ہوا چلنے کی وجہ سے ان منصوبوں کے لیے بہت سازگار ہیں۔‘
آنند کمار کا کہنا ہے کہ زمین کی فزیبلٹی کا جائزہ لینے اور وزارت دفاع کی جانب سے منظوری ملنے کے 18 ماہ بعد ان منصوبوں پر کام شروع ہو سکے گا۔
انہوں نے کہا کہ ان منصوبوں سے ہمیں ماحول میں کاربن کی مقدار کم کرنے اور 2015 کے پیرس معاہدے پر عمل درآمد کرنے میں مدد ملے گی۔
واضح رہے کہ فی الوقت انڈیا اپنی توانائی کی 23 فیصد ضروریات قابل تجدید توانائی کے منصوبوں سے پوری کر رہا ہے جن میں شمسی اور ہوا سے چلنے والے توانائی کے منصوبے شامل ہیں۔

انڈیا نے قابل تجدید توانائی کے منصوبے راجستھان اور گجرات میں لگانے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ فوٹو: وکی پیڈیا

توانائی اور قابل تجدید منصوبوں کے وزیر آر کے سنگھ نے رواں برس جولائی میں پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ ’انڈیا کے قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کی صلاحیت 80 گیگا واٹ سے تجاوز کر گئی ہے اور یہ آئندہ تین برس میں 175 گیگا واٹ تک پہنچ جائے گی جیسا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے وعدہ کر رکھا ہے۔‘
دوسری جانب ملک میں قابل تجدید توانائی کے منصوبوں میں نجی سرمایہ کاری کم ہے اور حکومت کو منصوبوں کے لیے زمین حاصل کرنے میں بھی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
ممبئی کے تھنک ٹینک ’گیٹ وے ہاؤس‘ کے امیت بھنڈاری کے مطابق ’زرعی اور جنگلات والی زمین قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کے لیے موزوں نہیں ہے۔‘
اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ملک کی مغربی سرحد کا زیادہ تر علاقہ بنجر اور نیم صحرا ہے اور یہ ان منصوبوں کے لیے بہترین جگہ ہے۔‘
دریں اثنا ملک میں کوئلے، تیل اور گیس سے متعلقہ توانائی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے اور فرانس اور سعودی عرب کی بڑی کمپنیاں ’ٹوٹل‘ اور ’آرامکو‘ انڈین کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری کر رہی ہیں۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: