Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’حکومت چاہے بھی تو کچرا نہیں اٹھا سکتی‘

کراچی میں روزانہ 14 ہزار ٹن سے زائد کچرا جمع ہوتا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
وفاقی حکومت کی تین ماہ پر محیط کلین کراچی مہم تکمیل سے پہلے ہی تحلیل ہوگئی، جبکہ سندھ حکومت کی ایک ماہ لمبی صفائی مہم بھی اختتام پذیر ہو چکی ہے۔
دوسری جانب بلدیاتی ادارے اپنے تئیں پوری کوشش کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، مگر شہر کراچی کا کچرا جوں کا توں موجود اور رہائشی علاقوں میں کچرے کے ڈھیر اب بھی قائم ہیں، کیونکہ حیرت انگیز طور پر کسی بھی حکومتی مہم کے مقاصد میں یہ بات شامل ہی نہیں تھی کہ رہائشی علاقوں کو کچرے کے ڈھیر سے پاک کیا جائے۔
کراچی کا کچرا اٹھانا صوبائی اور بلدیاتی حکومتوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے جسے پورا نہ کرنے پر متعلقہ اداروں کو بسا اوقات تنقید کا سامنا رہتا ہے، مگر ہٹ دھرمی اور کام چوری کے علاؤہ اس کام میں کوتاہی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ متعلقہ ادارے جان بوجھ کر کچرا اٹھانے میں تاخیر کرتے ہیں اور رہائشی علاقوں میں کچرے کے ڈھیر بناتے ہیں تاکہ کباڑ کے ٹھیکے داروں اور کچرا چننے والوں کو برابر موقع مل سکے۔
ویسے تو حکومت کے متعین کردہ اہلکاروں کو ہر گھر اور گلی سے کچرا اٹھانا چاہیے اور وہ بھی ہر روز، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کراچی میں کچرا اکھٹا کرنے کا ایک متوازی سسٹم رائج ہے، جو ہے تو غیر قانونی مگر ہوتا قانونی اہلکاروں کی ملی بھگت سے ہے۔
کراچی کے رہائشی علاقوں میں گھروں سے کچرا اٹھانے عموماً افغان شہری اور بچے آتے ہیں جو گدھا گاڑی اور چنگچی رکشہ پر رکھے بڑے بڑے تھیلوں میں کچرا جمع کرتے ہیں اور اسے قریب واقع کسی خالی پلاٹ یا ویران میدان میں انڈیل آتے ہیں۔ گلشن، ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، فیڈرل بی ایریا، گلستان جوہر، نارتھ کراچی، پی ای سی ایچ ایس اور ڈیفینس سمیت دیگر رہائشی علاقوں میں یہی طریقہ کار رائج ہے۔

کراچی کے رہائشی علاقوں میں گھروں سے کچرا اٹھانے عموماً افغان شہری اور بچے آتے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کچرا چننے والے افراد نے بتایا کہ وہ یہ کام 'ٹھیکے دار' کے لیے کرتے ہیں، جو اس کام کے انہیں فی بندہ چھ سے سات ہزار روپے ماہانہ دیتا ہے۔ چونکہ افغان شہری شناختی کارڈ اور دیگر قانونی کاغذات نہ ہونے کی وجہ سے نوکری نہیں کر سکتے اس لیے وہ اتنی قلیل اجرت پر یہ کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
خالی گراؤنڈ یا پلاٹ پر کچرا جمع ہو جانے کے بعد کچرا چننے والے افراد اس میں سے کباڑ، ردی اور دیگر اشیاء چنتے ہیں جسے پھر کباڑی کے پاس بیچا جاتا ہے۔ کچرا چننے والے افراد ٹھیکے دار کو ماہانہ ایک رقم کی ادائیگی کرتے ہیں جس کے بعد وہ انہیں اس ڈھیر میں سے کچرا چننے کی اجازت دیتا ہے۔ کباڑ بیچ کر جو آمدنی ہوتی ہے وہ ان کی اجرت ٹھہرتی ہے۔ اس سب کے بعد حکومتی اہلکاروں کو اطلاع کردی جاتی ہے اور وہ ہفتے میں دو یا زیادہ مرتبہ ان غیر قانونی کچرا سٹیشن پر آکر علیحدہ کیا ہوا کچرا ٹرک میں بھر کر لے جاتے ہیں۔

 

یہ نام نہاد ٹھیکے دار حکومتی اہلکاروں کے لیے مڈل مین یا فرنٹ مین کا کردار ادا کرتا ہے، اور انہی ٹھیکہ داروں کی مدد سے رہائشی علاقوں کے بیچ کچروں کے ڈھیر ہمیشہ قائم رہتے ہیں۔ حکومتی اداروں پر لازم ہے کہ وہ گاربیج ڈمپنگ سائٹس کے قریب ریسائکلنگ پلانٹ لگا کر کچرے کو علیحدہ اور ریسائیکل کریں۔ مگر ایک تو انہوں نے شہر کے باہر ریسائیکلنگ پلانٹ نہیں لگایا دوسرا یہ کہ رہائشی علاقوں کے اندر ہی کچرا الگ کر لینے سے ٹرک کے پھیرے کم لگتے ہیں اور یہیں کچرا بک بھی جاتا ہے۔
اس کے علاؤہ سڑک پر رکھے ڈرموں سے بھی کچرا اٹھانے میں تاخیر کی جاتی ہے، کچرا چننے والے افغان شہریوں کے مطابق وہ ان ڈرموں سے بھی کچرا چن کر الگ کرتے ہیں اور بچے ہوئے کچرے کو ڈرموں میں واپس جمع کردیتے۔ یہی وجہ ہے کہ کچرا اٹھانے والا ٹرک روزانہ نہیں آتا بلکہ تب جب کچرے کا ڈھیر لگ جائے۔
اس سب طریقہ کار کے پس منظر میں حکومتی اعلانات کی حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے اور واضح ہوجاتا ہے کہ حکومتی عہدیداران رہائشی علاقوں میں قائم کچرے کے ڈھیر سے الٹا مستفید ہو رہے ہیں تو وہ اس کو ختم کروانے میں حصہ دار کیوں بنیں۔

میئر کراچی وسیم اختر نے الزام عائد کیا ہے کہ سندھ حکومت نے من پسند ادارے کو کچرا اٹھانے کا ٹھیکہ دیا. فوٹو: اے ایف پی

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پہلے شہر میں کچرا اٹھانے کا نظام بلدیاتی حکومت کے پاس تھا اور ان کا اپنا انفراسٹرکچر تھا، لیکن یہ اختیار صوبائی حکومت کو منتقل ہونے اور سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے نام سے نئے ادارے کے قیام کے بعد اب پہلے سے چلے آرہے 'ٹھیکے داری' نظام کو مسائل پیش آئے ہیں اور بااثر افراد کی ماہانہ کمائی پر فرق پڑا ہے، یہی وجہ ہے کہ کراچی میں کچرے پر سیاست شروع ہوگئی ہے تا کہ اس سے منسلک مفادات کو بچایا جا سکے۔
میئر کراچی وسیم اختر نے الزام عائد کیا ہے کہ سندھ حکومت نے من پسند ادارے کو کچرا اٹھانے کا ٹھیکہ دیا تا کہ مخصوص افراد کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔ جواباً صوبائی حکومت نے بلدیاتی حکومت اور اس کی پارٹی متحدہ قومی موومنٹ پر شہر کی صفائی میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام لگایا، اور کہا کہ ان کے کارکن نالوں اور گٹروں کو بلاک کر کے صفائی کا نظام متاثر کرتے ہیں۔
کراچی میں روزانہ 14 ہزار ٹن سے زائد کچرا جمع ہوتا ہے، لیکن شہر کے تمام انتظامی اور بلدیاتی اداروں کی مشترکہ طور پر بھی اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر اس کچرے کو ایک دفع میں ٹھکانے لگا سکیں۔

 

یہی وجہ ہے کے کچرے کو رہائشی علاقوں میں ہی ڈمپ کیا جاتا ہے جو پڑے پڑے تعفن پیدا کرتا ہے۔
کئی بار جب گاڑی ہفتہ ہفتہ ان کچرے کے ڈھیروں کو اٹھانے نہیں آتی تو مجبوراً اسے جلادیا جاتا ہے تا کہ تازہ کچرے کو رکھنے کی جگہ بنائی جا سکے، یہ عمل ماحولیاتی آلودگی کا باعث بنتا ہے۔
حکومتی اور بلدیاتی اداروں کی نا اہلی، ہٹ دھرمی اور ملی بھگت کی وجہ سے شہر عرصہ دراز سے کچرے کے ڈھیر کا منظر پیش کر رہا ہے، شہریوں اور مخالف پارٹیوں کی جانب سے احتجاج کے بعد کچرے پر پوائنٹ سکورنگ کی سیاست شروع ہو گئی۔

اگست میں وفاقی حکومت کی جانب سے کراچی کو صاف کرنے کی مہم کا آغاز کیا گیا۔ فوٹو: اے ایف پی

 اگست میں وفاقی حکومت کی جانب سے کراچی کو صاف کرنے کی مہم کا آغاز کیا گیا اور دعویٰ کیا گیا کے دو ہفتے کے اندر شہر کو صاف کردیا جائے گا۔ وفاقی وزیر علی زیدی کی جانب سے دیا گیا یہ بیان اجلت میں کی گئی پلاننگ کا ثبوت تھا، اور ظاہر کرتا تھا کے وفاقی حکومت کو معاملے کی سنگینی کا ادراک نہیں۔
شہر میں کچرا اٹھانے کے لیے صوبائی حکومت نے سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ کے تحت ایک چینی کمپنی کو ٹھیکہ دیا تھا مگر وہ منصوبہ بھی ناکام ہوا جس کے بعد اس معاہدے کو منسوخ اور بورڈ کے ڈائریکٹر کو تبدیل کردیا گیا۔ اس کے علاؤہ شہر کے کچھ اضلاع میں میونسپل کارپوریشن پر کچرا اٹھانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے تاہم ان کی جانب سے اختیارات اور فنڈز نہ ہونے کا ہی رونا رویا جاتا ہے۔
حال ہی میں اختتام پذیر وزیراعلیٰ سندھ کی ایک ماہ کی صفائی مہم میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کل 9 لاکھ 79 ہزار 941 ٹن کچرا اٹھایا گیا جس میں روزانہ کی بنیاد پر ایک لاکھ 54 ہزار 437 ٹن کچرا اٹھایا گیا۔
اس صفائی مہم کے دوران شارع فیصل سے قائدآباد تک کے پلوں پر وائیٹ واش کیا گیا جبکہ واٹر بورڈ نے گٹروں کی صفائی کے کام کا بھی آغاز کیا۔ صفائی مہم کے اختتام پر اب ڈی ایم سیز اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کو احکامات جاری کیے گئے کہ وہ اس صفائی کو جاری رکھیں۔
ویسٹ منیجمنٹ بورڈ کے اہلکار کے مطابق گھروں سے اٹھائے گئے کچرے کو کلیکشن پوائنٹ پر جمع کیا جاتا ہے، پھر اسے گاربیج ٹرانسفر سٹیشن لے جایا جاتا ہے جہاں پر سے اسے لینڈ فل سائٹس منتقل کردیا جاتا ہے۔
تاہم مسئلہ جوں کا توں قائم ہے، رہائشی علاقوں کے بیچ کچرے کے ڈھیر قائم ہیں اور سڑک پر رکھے کچرے کے ڈرموں کو بھی روزانہ کی بنیاد پر خالی نہیں کیا جا رہا۔

شیئر: