Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جناح کیپ کیسے بنتی ہے؟

تحریک آزادی میں بانی پاکستان محمد علی جناح نے کراکل ٹوپی اور شیروانی کو اپنے لباس کا حصہ بنایا جس کی وجہ سے قراقلی ٹوپی ’جناح کیپ‘ کے نام سے منسوب ہوگئی۔
شیروانی اور جناح کیپ پاکستان کا قومی لباس بھی ہے لیکن اب اس کا استعمال انتہائی کم ہوچکا ہے۔
راولپنڈی کے صدر بازار میں کراکل ہاؤس میں شیخ محمد رفیق شہر میں واحد کاریگر ہیں جو جناح کیپ تیار کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ جناح کیپ بنانا شیخ محمد رفیق کا خاندانی پیشہ ہے اور انہوں نے یہ ہنر اپنے والد سے سیکھا۔
شیخ محمد رفیق نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جناح کیپ بھیڑ کے بچے کی کھال سے تیار کی جاتی ہے اور یہ کھال افغانستان سے درآمد کی جاتی ہے۔ ’بھیڑ کے بچے کو زبح کیا جاتا ہے اور اس کی کھال اتار کر اس کی صفائی کی جاتی ہے۔ صفائی کے بعد یہ یہاں درآمد ہوتی ہے۔ کھال کی کٹائی ہونے کے بعد اس کی ہاتھ سے سلائی کرتے ہیں۔‘


جناح کیپ بنانا شیخ محمد رفیق کا خاندانی پیشہ ہے اور انہوں نے یہ ہنر اپنے والد سے سیکھا (فوٹو:اردو نیوز)

شیخ محمد رفیق کے مطابق ان کے ماموں نے قائداعظم محمد علی جناح کو کراچی میں جناح کیپ پہنوائی تھی۔ ’میرے ماموں کراچی میں کام کرتے تھے جبکہ والد پشاور کے قصہ خوانی بازار میں اس کاروبار سے منسلک تھے۔‘
بانی پاکستان محمد علی جناح کے علاوہ کراکل ٹوپی سابق وزیراعظم لیاقت علی خان، سابق صدر فیلڈ مارشل ایوب خان، سابق وزیراعظم زولفقار علی بھٹو، سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو، سابق وزیراعظم نوازشریف اور وزیراعظم عمران خان بھی پہن چکے ہیں۔
شیخ محمد رفیق بتاتے ہیں کہ سابق صدر ایوب خان، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیراعظم اور صدر عبدالقیوم خان، سابق وزیراعلی سندھ غوث علی شاہ اور سابق وزیر خارجہ گوہر ایوب خصوصی طور پر ان سے جناح کیپ بنواتے تھے۔

جناح کیپ پہنے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے

شیخ محمد رفیق کہتے ہیں کہ اب جناح کیپ استعمال کرنے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے جس کی بڑی وجہ کھال(خام مال) مہنگا ہونا ہے۔ ’اس کا مٹیریل اب مہنگا ہو گیا ہے جس کی وجہ سے لوگ اب اسے خرید نہیں سکتے۔ اب اس کی ڈیمانڈ کم ہوگئی ہے پہلے ہمارے پاس دستے کے دستے لگے ہوتے تھے لیکن اب دو چار دانے ہوتے ہیں جن کو ہم اپنے استعمال میں لاتے ہیں۔ اب مہینے میں ایک آدھ گاہک آجاتا ہے۔‘

شیخ محمد رفیق کہتے ہیں کہ اب جناح کیپ استعمال کرنے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے جس کی بڑی وجہ کھال مہنگا ہونا ہے (فوٹو:اردو نیوز)

جناح کیپ کی قیمت اب 10 ہزار سے 15 ہزار تک ہے۔ ’بہتر کوالٹی کی کھال کی قیمت زیادہ ہوتی ہے اور خاص طور پر کالے رنگ کی کھال کی قیمت زیادہ ہوتی ہے اس لیے کالے رنگ کی کیپ سب سے مہنگی ہے۔‘
جناح کیپ کی شکل کی ٹوپی سستی مل جاتی ہے لیکن وہ کپڑے یا کسی اور مٹیریل سے تیار کی جاتی ہے۔
’اکثر قوال یا نعت خوان آرٹیفیشل کراکل ٹوپی لے جاتے ہیں۔‘  
شیخ محمد رفیق کہتے ہیں کہ پہلے قراقلی ٹوپی کی بہت ڈیمانڈ ہوا کرتی تھی۔ ’پہلے شادی بیاہ پر بھی جناح کیپ پہنی جاتی تھی۔ شادی میں رسم کے طور پر سسر کے لیے خصوصی طور پر جناح کیپ بنائی جاتی تھی۔ دلہے اور دوستوں کے لیے بھی تیار کروائی جاتی تھی لیکن اب یہ سلسلہ ختم ہوچکا ہے۔ آزاد کشمیر کے لوگوں میں جناح کیپ کافی مقبول تھی لیکن اب وہاں بھی ڈیمانڈ کم ہوتی جا رہی ہے۔‘
’ڈیمانڈ کم ہونے کی وجہ سے اب اس کے کاریگر بھی بہت کم ہوگئے ہیں، کچھ کاریگر فوت ہو چکے ہیں اور کچھ نے کام کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔‘

جناح کیپ کی قیمت اب 10 ہزار سے 15 ہزار تک ہے (فوٹو:اردو نیوز)

شیخ محمد رفیق کی خواہش ہے کہ سرکاری ملازمین پر دفاتر میں جناح کیپ پہننا لازم قرار دیا جائے۔
’چونکہ یہ ہمارے قومی لباس کا حصہ ہے اس لیے سرکاری دفاتر میں، بینکوں میں اس کو پہننا لازمی قرار دیا جائے۔‘
شیخ محمد رفیق بتاتے ہیں کہ ان کا ایک ہی بیٹا ہے لیکن انہوں نے یہ ہنر اپنے بیٹے کو منتقل نہیں کیا۔
’میرا اکلوتا بیٹا ہے وہ سعودی عرب میں محنت مزدوری کر رہا ہے اس ہنر کی اب اتنی اہمیت نہیں رہی۔ میرے ماموں زاد اور چچا زاد پشاور میں اس کام سے منسلک ہیں۔‘
راولپنڈی شہر میں جناح کیپ بنانے والے واحد کاریگر پُرامید ہیں کہ جناح کیپ پہننے کی روایت کم ضرور ہوئی ہے لیکن یہ ختم نہیں ہوگی۔

شیئر: