بلوچستان: این جی اوز کے تعاون سے مدارس کے طلبہ کے لیے جدید تعلیم کا منصوبہ
بلوچستان: این جی اوز کے تعاون سے مدارس کے طلبہ کے لیے جدید تعلیم کا منصوبہ
منگل 5 اگست 2025 7:53
زین الدین احمد، -اردو نیوز، کوئٹہ
انور کاسی کا کہنا ہے کہ نصاب مکمل کرنے کے بعد مدارس کے طلبہ باقاعدہ بورڈ کے امتحانات دے سکیں گے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
بلوچستان میں حکومت نے غیر سرکاری تنظیموں کے تعاون سے مدارس کے طلبہ کو دینی تعلیم کے ساتھ عصری اور فنی تعلیم فراہم کرنے کے منفرد منصوبے پر کام شروع کر دیا ہے۔ اس اقدام کا مقصد نہ صرف طلبہ کو جدید تعلیمی دھارے سے جوڑنا ہے بلکہ ان لاکھوں بچوں کو بھی تعلیم کی طرف واپس لانا ہے جو غربت یا دیگر وجوہات کی بنا پر سکولوں سے باہر ہیں۔
اس منصوبے کے لیے بلوچستان کے محکمۂ تعلیم اور بلوچستان رورل سپورٹ پروگرام (بی آر ایس پی) کے درمیان مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہو چکے ہیں۔ مالی معاونت پاکستان پاورٹی ایلیویشن فنڈ (پی پی اے ایف ) فراہم کر رہا ہے۔
بی آر ایس پی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین ملک انور سلیم کاسی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ہم مدارس کے ساتھ مل کر اساتذہ کی بھرتی کریں گے انہیں تربیت دیں گے اور ان کی استعداد اور صلاحیتوں میں اضافہ کیا جائے گا تاکہ وہ دینی تعلیم کے ساتھ جدید سائنسی مضامین بھی پڑھا سکیں۔
ان کے مطابق محکمۂ تعلیم کی منظوری سے ایک باقاعدہ نصاب ترتیب دیا گیا ہے جس کے تحت پانچ سالہ پرائمری کورس تین سال اور تین سالہ مڈل کورس دو سال میں مکمل کروایا جائے گا۔ طلبہ کو ریاضی، سائنس اور دیگر مضامین پڑھائے جائیں گے جبکہ موٹر سائیکل مکینک، پلمبنگ اور دیگر ووکیشنل کورسز کے ذریعے فنی تربیت بھی دی جائے گی۔
انور کاسی کا کہنا ہے کہ نصاب مکمل کرنے کے بعد مدارس کے طلبہ باقاعدہ بورڈ کے امتحانات دے سکیں گے اور چاہیں تو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے سکول، کالج، یونیورسٹی یا فنی اداروں میں داخلہ بھی لے سکیں گے۔
انہوں نے کہاکہ بیشتر مدارس میں صرف دینی تعلیم دی جاتی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ بچے جدید تعلیم سے بھی ہم آہنگ ہوں تاکہ وہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے نہ رہیں اور بہتر روزگار اور تعلیم کے مواقع حاصل کر سکیں۔ یہ منصوبہ اسی سمت ایک عملی قدم ہے۔
ابتدائی مرحلے میں منصوبے کا آغاز کوئٹہ، مستونگ اور پشین کے تقریباً 280 مدارس میں کیا جا رہا ہے۔ بی آر ایس پی ان مدارس میں بیت الخلاء، غسل خانے، کلاس رومز اور دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی پر بھی کام کرے گی۔
انور سلیم کاسی کے مطابق چند سال قبل جرمن حکومت کے تعاون سے اسی طرز کا ایک منصوبہ کامیابی سے چلایا گیا تھا۔ اب اس ماڈل کو حکومت کے ساتھ مل کر وسعت دی جا رہی ہے جس سے ابتدائی طور پر تقریباً 20 ہزار طلبہ مستفید ہوں گے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’مدارس اور این جی اوز کے درمیان ماضی میں کافی خلاء اور اعتماد کا فقدان رہا ہے۔ اس لیے شروع میں مدارس میں جاکر کام کرنے میں ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم نے وفاق المدارس اور علمائے کرام سے مشاورت کی، ان کے تحفظات سنے اور انہیں اعتماد میں لے کر یہ منصوبہ شروع کیا اور اب ہمیں ان کا بھرپور تعاون حاصل ہے۔‘
محکمۂ تعلیم کی منظوری سے ایک باقاعدہ نصاب ترتیب دیا گیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
کوئٹہ کی مرکزی جامع مسجد کے خطیب اور معروف عالمِ دین انوارالحق حقانی نے اس اقدام کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ طلبہ دینی کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم بھی حاصل کریں لیکن مدارس میں وسائل کی کمی ہے۔ اچھی بات ہے کہ اب غیر سرکاری ادارے مدارس میں بھی کام کر رہے ہیں اور ان کی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں۔ حکومت کو بھی دینی مدارس پر توجہ دینی چاہیے۔‘
وفاقی وزیر مملکت برائے تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت وجیہہ قمر کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت مدارس کے طلبہ کو عصری تعلیم سے آراستہ کرنے میں مکمل تعاون فراہم کرے گی۔
ان کے مطابق وفاقی وزارت تعلیم کے ماتحت مذہبی تعلیم کے لیے ایک الگ ڈائریکٹوریٹ موجود ہے جس کے تحت ملک بھر کے 19 ہزار سے زائد مدارس رجسٹرڈ ہیں تاہم بلوچستان سے صرف 590 مدارس رجسٹرڈ ہیں۔
وجیہہ قمر نے کہا کہ رجسٹریشن سے مدارس کو تربیت، امتحانی نظام اور دیگر سہولیات میسر آتی ہیں اس لیے بلوچستان کے مدارس کو اپنی رجسٹریشن بڑھانی چاہیے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ مدارس کے طلبہ کے لیے بھی آئی ٹی، میڈیکل اور انجینیئرنگ کے دروازے کھلے رہے تاکہ وہ بھی ڈاکٹر، انجینیئر، سائنس دان اور آئی ٹی ماہر بن سکیں۔
صوبائی وزیر تعلیم راحیلہ درانی کا کہنا ہے کہ مدارس اس وقت محکمۂ صنعت کے پاس رجسٹرڈ ہیں جبکہ انہیں صوبائی محکمۂ تعلیم کے پاس رجسٹرڈ ہونا چاہیے تاکہ محکمۂ تعلیم تعلیمی اداروں کی طرح ان پر توجہ دے سکیں۔
بلوچستان میں 30 لاکھ بچے تعلیم کی سہولت سے محروم ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
محکمۂ تعلیم بلوچستان کے مطابق صوبے میں تقریباً 30 لاکھ بچے سکول سے باہر ہیں۔ 2023 کی مردم شماری کے مطابق صوبے کی شرح خواندگی صرف 42 فیصد ہے جو ملک میں سب سے کم ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ ان بچوں کو تعلیمی دھارے میں لانے کا ایک مؤثر ذریعہ بن سکتا ہے خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں والدین معاشی مجبوری کے تحت بچوں کو صرف مدارس میں تعلیم دلواتے ہیں۔
ملک انور سلیم کاسی کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ حکومت کے لیے ایک نمونہ ہے۔ اس طرز کے پروگرامز بڑے پیمانے پر صرف حکومت ہی چلا سکتی ہے۔
پاکستان پاورٹی ایلیویشن فنڈ کے چیف ایگزیکٹیو نادر گل بڑیچ کے مطابق منصوبے کے تحت بچوں کو نہ صرف اساتذہ بلکہ مفت کتابیں، بیگز اور دیگر تعلیمی مواد بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔ ہم نے اب تک اسلام آباد میں 100 بچوں کو چھ ماہ کی تکنیکی تربیت بھی دی ہے۔
ابتدائی مرحلے میں منصوبے کا آغاز کوئٹہ، مستونگ اور پشین کے تقریباً 280 مدارس میں کیا جا رہا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں ڈھائی کروڑ سے زائد بچے سکول سے باہر ہیں۔ اگر صرف چھ ہزار مدارس میں ایک ایک استاد بھرتی کیا جائے تو پانچ لاکھ بچے عصری تعلیم حاصل کر سکتے ہیں اور اس کے لیے نئے سکول بنانے یا کوئی انفراسٹرکچر تعمیر کرنے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔
نادر گل بڑیچ کے مطابق بلوچستان کی پچھلی حکومت نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور منصوبے پر کام بھی شروع ہوا تاہم بعد میں وفاقی سیکریٹری تعلیم نے یہ کہہ کر اسے روک دیا کہ مدارس وفاق کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مدارس کو عصری تعلیمی نظام کا حصہ بناکر صوبے میں تعلیم کی شرح اور معیار کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔