Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ علاقہ جہاں خواتین کے لیے کورونا ’نعمت‘

طبی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے خواتین شہروں میں علاج کرواتی ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
کورونا وائرس کی وبا یوں تو پوری دنیا کی لیے زحمت کا باعث بنی ہوئی ہے لیکن پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے کوہاٹ کی کچھ خواتین کے لیے یہ ایک نعمت سے کم ثابت نہیں ہوئی۔ 
ضلع کوہاٹ کے کئی گاؤں ایسے ہیں جہاں اب تک کوئی خاتون ڈاکٹر نہ تھیں، جس کی وجہ سے خواتین اپنا علاج خاص کر زچگی سے متعلق مسائل کا علاج یا تو گھر میں ڈھونڈتی تھیں یا انہیں کوہاٹ شہر تک جانا پڑتا تھا اور یہ حل آرام کا سبب نہیں بنتا تھا۔
45 سالہ عشرت بی بی جن کے تین بچے، ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں، کا کہنا ہے کہ انہیں تینوں بچوں کی پیدائش کے لیے کوہاٹ شہر جانا پڑا کیوں کہ ان کے علاقے میں کوئی خاتون ڈاکٹر دستیاب نہیں تھیں۔
لیکن ان کے علاقے میں کئی خواتین ایسی تھیں جو بنیادی صحت اور دیہی صحت کے مراکز میں خاتون ڈاکٹر نہ ہونے کی وجہ سے اپنی جان سے گئیں۔ 
کوہاٹ کی تحصیل لاچی کے ہسپتال میں کام کرنے والے سرجیکل یونٹ انچارج محمد خلیفہ کا کہنا تھا کہ مقامی افراد کا ایک طویل عرصے سے مطالبہ تھا کہ ان کے مراکز صحت میں خواتین ڈاکٹر تعینات کی جائیں لیکن اب تک ان کی شنوائی نہیں ہوئی تھی۔ 
تاہم رواں سال کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد اس سے بچاؤ کے لیے جو ہنگامی اقدامات اس کے تحت کوہاٹ کے ان علاقوں میں بلآخر تین خواتین ڈاکٹرز تعینات کر دی گئیں۔ 

خیبر پختونخوا کے دور دراز علاقوں میں خواتین ڈاکٹرز کی کمی ہے (فوٹو بشکریہ: محمد خلیفہ)

خلیفہ نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ خواتین ڈاکٹرز کی تعیناتی سے پہلے خواتین لیڈی ہیلتھ ورکرز یا لیڈی ہیلتھ وزیٹر پر انحصار کرتی تھیں۔ کیونکہ پاکستان کے دیگر دور دراز علاقوں کی طرح یہاں بھی نقل و حمل کے ذرائع فوری طور پر اور آسانی سے میسر نہیں ہوتے۔ اور دیہات میں پبلک ٹرانسپورٹ دوپہر دو بجے کے بعد ملنا بے حد مشکل ہوتا ہے۔
’اگرکسی خاتون کی حالت پیچیدہ ہوتی تو اس کو کوہاٹ شہر تک جانے کے لیے نجی ٹرانسپورٹ سروس لینی پڑتی تھیں جس کا خرچہ چھ سے آٹھ ہزار روپے تک ہوتاہے۔ اگر انہیں بچوں کی پیدائش کے لیے آپریشن، یا سی سیکشن کروانا ہوتا ہے تو اس پر 10 سے 12ہزار روپے الگ خرچ ہیں۔‘
محمد خلیفہ کہتے ہیں کہ وہ لاچی ہسپتال میں سرجیکل یونٹ انچارج تو ہیں لیکن ہسپتال میں سرجری کے لیے کوئی سامان مہیا نہیں جس کی وجہ سے سی سیکشن کے لیے بھی خواتین کو کوہاٹ شہر تک کا سفر کرنا پڑتا تھا۔ 
لاچی تحصیل اور کوہاٹ کے درمیان 28 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ اور وہاں تک نہ پہنچ سکنے والی خواتین کا واحد سہارا لیڈی ہیلتھ وزیٹرز اور لیڈی ہیلتھ ورکرز ہوتی تھیں، جو بذات خود جدید طبی تربیت سے محروم ہیں۔ 

اکثر بی ایچ یوز میں طبی عملے کی بھی کمی ہوتی ہے (فوٹو بشکریہ: محمد خلیفہ)

 
خلیفہ کے مطابق علاقے میں کام کرنے والی لیڈی ہیلتھ وزیٹرز کے پاس دو سال کا مڈوائف کا ڈپلومہ ہوتا ہے جبکہ لیڈی ہیلتھ ورکر کے پاس طبی سہولیات میں ڈگری یا سرٹیفیکیٹ سرے سے موجود ہی نہیں ہوتا۔ 
یوں تو کورونا وائرس کی وبا کی وجہ ان تین خاتون ڈاکٹرز کی علاقے میں تعیناتی یہاں کی خواتین کے لیے نعمت سے کم نہیں لیکن ان میں سے کچھ مراکز میں اب بھی رات کے وقت طبی سہولیات کا فقدان ہوتا ہے۔
عشرت کا کہنا ہے کہ اسی وجہ سے حال ہی میں ایک خاتون کی نومولود بیٹی زچگی کے دوران انتقال کر گئی۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں