Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسجد میں جماعت کے بعد ایک اور جماعت

ابوعدنان۔ الخبر
 
جماعت سے رہ جانے والے لوگوں کے لئے جائز ہے کہ وہ مل کر دوسری جماعت کروالیں کیونکہ ابوداؤد، ترمذی، بیہقی، ابن حبان، مستدرک حاکم اور مسند احمد میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک شخص مسجد میں اسوقت داخل ہوا جب نبی  صحابہؓ کے ساتھ نماز پڑھ چکے تھے۔ نبی نے ارشاد فرمایا
’’ تم میں سے کون یہ قربانی دیتا ہے کہ اس شخص کے ساتھ نماز پڑھے ؟‘‘۔
تو ان صحابہ ؓ  میں سے جو کہ نماز پڑھ چکے تھے ایک صحابی اٹھے اور انہوں نے اس کے ساتھ نماز پڑھی(الفتح الربانی ، ترمذی )۔
 
دارقطنی میں حضرت انسؓسے مروی ہے کہ مسجد میں ایک شخص اس وقت داخل ہوا جبکہ نبی  نماز پڑھا چکے تھے۔ اُس نے اکیلے نماز پڑھنا شروع کی تو نبی نے فرمایا
کون ہے جو اس شخص کے ساتھ مل کر نماز پڑھے اور ثواب کا سودا کرے؟ 
 
اس حدیث کو امام زیلعی نے نصب الرایہ فی تخریج ہدایہ میں اور حافظ ابن حجر نے الدرایہ میں حسن قراردیا ہے۔ اس مسئلہ کی تائید متعدد آثارِ صحابہ ؓ سے بھی ہوتی ہے جیسا کہ صحیح بخاری شریف میں تعلیقاً اور مسند ابی یعلیٰ میں موصولاً مذکور ہے کہ حضرت انس ؓ  مسجد میں آئے جبکہ نماز کی جماعت ہو چکی تھی تو انہوں نے اذان اور اقامت کہی اور جماعت کے ساتھ نماز ادا کی۔ابن ابی شیبہ میں ہے کہ حضرت ابن مسعودؓ  مسجد میں داخل ہوئے تو جماعت ہو چکی تھی۔ انہوں نے علقمہ ،مسروق اور اسود کے ساتھ مل کر باجماعت نماز ادا کی۔ ان احادیث وآثار سے پتہ چلتا ہے کہ اگر کسی مسجد میں جماعت ہو چکی ہو تو وہاں بوقتِ ضرورت اذان واقامت کے ساتھ یا صرف اقامت کے ساتھ یا بغیر اقامت کہے دوسری جماعت کرانا جائز ہے۔
 
الفقہ علیٰ المذاہب الاربعہ کے مطابق احناف کے نزدیک اس مسئلہ میں کچھ تفصیل ہے کہ راستوں پر بنائی گئی مساجد جن کا نہ کوئی امام ہو نہ نمازی متعین ہوں ،ان میں دوبارہ جماعت کرانا بلا کراہت جائز ہے۔اِسی طرح محلہ کی مسجد میں بغیر دوسری اذان واقامت کہے دوسری جماعت کرانا بھی بلا کراہت جائز ہے اور محلہ کی وہ مساجد جن کیلئے امام اور نمازی متعین ہوتے ہیں ان میں بھی اس شرط کے ساتھ دوسری جماعت جائز ہے کہ پہلی جماعت کی شکل میں نہ پڑھی جائے ۔یعنی پہلی جماعت اگر محراب میں ہوئی ہے تو دوسری جماعت کیلئے محراب کی بجائے دوسری جگہ کھڑے ہوا جائے ۔یہی تفصیلات بحر الرائق شرح کنز الدقائق، شرح منیۃ المصلّی، طوالع الانوار شرح درّمختار اور ردالمحتار حاشیہ درّمختار وغیرہ میں بھی مذکور ہیں۔
 
 

شیئر: