Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تارک نماز کافر ہے یا محض فاسق

 تارکِ نماز سے ایمان سلب کیا جانا اولیٰ ہے، اسے مسلمان اور مؤمن کانام نہیں دیا جا سکتا اگر چہ اس کے پاس اسلام اور ایمان کا کچھ حصہ بھی ہے
 
گزشتہ سے پیوستہ
 
محمد منیر قمر۔ الخبر
 
کفرِ اعتقاد تو یہ ہے کہ یہ مانتے ہو ئے کہ رسول جو احکام وافعال اللہ سے لا ئے ہیں اور اللہ کے جو اسماء حسنیٰ اور صفاتِ علیا ہیں ، ان سب کا انکار کر ے، ان پر ایمان نہ لا ئے ، یہ کفر ہر اعتبار سے ایمان کی ضد ہے جبکہ کفر کی دوسری قسم یعنی عملی کفر دو طرح کا ہے ۔ اس کے بعض اجزاء تو ایمان کی ضد ہیں جبکہ بعض ایسے نہیں جیسے بت کو سجدہ کرنا ،قرآنِ کریم کی تو ہین کرنا ، نبی کی شان عالی میں گستاخی کرنا ،یہ سب عملی کفر ہیں مگرایما ن کی ضد ہیں اور خود ساختہ قانون سے فیصلہ کرنا (قانونِ الہٰی کو چھوڑکر)اور نماز ترک کر نا ، عملی کفر کی اقسام ہیںاور یہ ہرگز ممکن نہیں کہ ایسے شخص سے کفر کی نفی کی جائے جس پر اللہ نے اور اس کے رسول نے کفر کالفظ بو لا ہے ۔ پس خودساختہ قانون سے فیصلہ کر نے والا اور تارکِ نماز نبی اکرم سے ثابت شدہ نصِ صریح کی روسے کافرہے ۔
 
 لیکن یہ عملی کفر ہے نہ کہ اعتقاد ی ۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ان دونوں کو اللہ اور اس کا رسول  کافر کہیں پھر بھی ان پر کفر کا نام نہ بولا جائے ۔ ایسے ہی شرابی ،چور اور پڑ وسیوں کو اذیت پہنچانے والوں کامعاملہ بھی ہے کہ ان سے نبی اکرم نے ایمان کی نفی کی ہے تویہ افعالِ کفر ہو ئے البتہ یہ عملی کفر ہے جس سے اعتقاد ی کفر کی نفی ہو گئی ۔ ایسے ہی عورت سے دبر میں جماع کر نے ، دوسرے مسلمان بھائی کو کافر کہنے اور کسی مسلمان سے قتال وجنگ کر نے اور سورہ البقرۃ کی آیت84اور85 میں کتاب اللہ کے بعض حصوں پر عمل کر نے والوں کو ان حصوں پر ایمان لا نے اور بعض حصوں کو ترک کر نے پر ان کا کفر کر نے کانام دیا ہے مگر یہ سب عملی کفر ہے ۔ ایسے ہی جن سے ایمان کی نفی کی گئی ہے ان سے اگر چہ ایمان کا نام توزائل ہو گیا لیکن وہ کفرِ عملی میں مبتلا ہیں اور یہ سب کلی طو ر پر دائرۂ اسلام اور ملتِ اسلامیہ سے خارج نہیں ہوں گے (اور ایسا کفر ہی ہے: کفردون کفر ۔ یعنی کفرِ بواح یا کفرِ اکبر واصلی سے کمتردرجے کا کفر ، جو مغفرت اور عدمِ خلود فی النار میں مانع نہیں ) ۔
 
 سابقہ ساری تفصیل سے ایک اور اصل بھی معلوم ہو گئی جو کہ اصولِ اہلِ سنت میں سے ایک عظیم اصل ہے اور وہ یہ کہ ملے جلے عمل والے شخص میں ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ اس میں کفر اور ایمان ، شرک اور توحید ، تقویٰ اور فسق وفجور اور نفاق اور ایمان اکٹھے ہو جا ئیں ۔(یعنی کچھ کام ایک قسم کے اور کچھ اس کے بر عکس دوسری قسم کے)جیسا کہ سورۃ یوسف کی آیت 106 میں اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے شرک کے با وجود ایمان ثابت کیا ہے اور سورۃ الحجرات کی آیت14 میں ان سے ایمان کی نفی کے با وجود ان کے لئے اسلام اور اللہ ورسول کی اطاعت ثابت ہے ۔
 
ایسے ہی بخاری ومسلم ، ترمذی اور نسائی میں ارشادِ نبوی ہے  
منافق کی 3 نشا نیاں ہیں
جب بات کر ے تو جھوٹ بولے  ۔
 وعدہ کرے تو خلاف ورزی کر ے  ۔
 اس کے پاس امانت رکھی جائے توخیانت کر ے ۔
جبکہ صحیح بخاری ومسلم ، ابو داؤد و ترمذی اور نسائی کی ایک دوسری حدیث میں 4 علا متیں بتائی ہیں
 چو تھی یہ ہے کہ: جب جھگڑ ے تو گا لیا ں بکے ۔ 
 یہ چار وں ہی افعال نفاق کی علا متیں ہیں لیکن یہ نفاق عملی ہے جوکہ اعتقاد ی نفاق سے کمتر درجے کا ہے جبکہ نفاق اعتقاد ی تووہ ہے جسے اللہ نے سورہ النساء آیت 45میں یوں بیان فرمایا ہے 
منافقین جہنم کے سب سے گہر ے گڑ ھے میں ہوں گے ۔
عملی نفاق والے شخص میں ایمان ونفاق دونوں بھی جمع ہو جاتے ہیں ۔ ایسے ہی ریا کاری کو مسند احمد میں شرکِ اصغر کہا گیا ہے ۔ اس کامعنیٰ یہ ہو اکہ شرک وتوحید بھی ایک شخص میں یکجا ہو سکتے ہیں ۔ ایسے ہی وہ شخص بھی جس نے خودساختہ قانون سے فیصلہ کیا یا بیوی سے لواطت کی وغیرہ ۔ ان امور میں کفر اور اسلام جمع ہو جاتے ہیں ۔یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ اگر کسی سے کوئی کفر یہ فعل صادر ہو جائے تواس پر مطلق کافر کالفظ صادق نہیں آتا ۔ ایسے ہی کسی حرام کا ارتکاب کر نے والے کو مطلق فاسق نہیں کہا جا ئے گا البتہ یہ نام تب صادق آئیں گے کہ کسی سے ان افعال کا صدرور غالب حالات میں ہو تا ہی رہے ۔ اسی طرح زانی ، شرابی ، چور اورڈ اکو کو مؤمن کا نام نہیں دیا جا سکتا اگر چہ وہ کچھ ایمان رکھتا ہے اور نہ ہی اسے کافر کہا جاسکتا ہے اگرچہ اس نے کفر یہ افعال کا ارتکاب کیا ہے ۔ 
 
اِس ساری تفصیل سے مقصودیہ بتاناہے کہ تارکِ نماز سے ایمان سلب کیا جانا دیگر کبا ئر کا ارتکاب کر نے والوں سے ایمان سلب کئے جانے سے بھی اولیٰ ہے ۔ اور تارکِ نماز سے اسلام کاسلب کیا جانا دوسرے لوگوں کو ہاتھ اور زبان سے تکلیف دینے والوں سے ایمان سلب کئے جانے سے اولیٰ ہے ۔ تارکِ نماز کو مسلمان اور مؤمن کانام نہیں دیا جا سکتا اگر چہ اس کے پاس اسلام اور ایمان کا کچھ حصہ بھی ہے۔ اب بات یہ رہ گئی کہ کیا اس کے پاس جوایمان واسلام کا حصہ ہے، وہ اسے جہنم میں ہمیشگی سے بچا سکتا ہے ؟ اس کاجواب یہ ہے کہ اگر متروک عمل دوسرے اعمال کے صحیح ہو نے کے لئے شرط نہیں تووہ فائدہ دے گا اور اگر متروک عمل دیگر اعمال کی قبو لیت کے لئے شرط ہے تو پھر وہ اسے فائدہ نہیں دے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ نبوت ورسالت کا انکار کر نے والوں کو محض اقرارِ توحید نے نفع نہ دیا اور جس نے جان بوجھ کر بلاوضو نماز پڑ ھی ، اسے نماز نے فائدہ نہ پہنچا یا ۔ غرض ایمان کے بعض شعبے دوسرے شعبوں کے ساتھ مشروط ہونے کا تعلق رکھتے ہیں جبکہ بعض ایسے نہیں۔ 
 
اب رہا معاملہ نماز کا کہ کیا یہ ایمان کے صحیح ہو نے کے لیٔے شرط ہے یا نہیں ؟ اور اس سارے مسئلے کا راز بھی یہی ہے اور جو دلائل ذکر کئے گئے ہیں، ان سے معلوم ہوا کہ یہ نماز اس کے دیو ان کی چابی اور اس کے فائدے یا نفع کا رأس المال ہے اور جب را ٔس المال ہی نہ ہو تو فائدہ یا منافع کہاں سے آئے گا؟  جب وہ نماز کے معاملہ میں گھا ٹا کھا گیا تو پھر ہر طرف سے خسارہ ہی خسارہ ہے ۔ جو شخص پکا تارکِ نماز ہے ، اس کے تمام اعمال اکارت جا تے ہیں ۔ جو کبھی کبھی چھو ڑتا ہے ، تو اس کے اس دن کے اعمال ضائع ہو جا تے ہیں ۔ 
 
 الغرض کبھی کبھی ترکِ نماز کا ارتکاب کر نے والے کو کہا جا سکتا ہے کہ اس نے کفر کیا کافر نہیں ہوا لیکن جو شخص نہ صرف یہ کہ ہمیشہ کا تارکِ نماز ہو بلکہ اس کے ساتھ ہی اسے ترکِ نماز پر اصرار بھی ہو تواس کے کفر میں کیا شک رہ جا تا ہے ؟ آگے چل کر علامہ ابن قیمؒ لکھتے ہیں
 
ایک شخص نے نماز چھوڑی ،اسے نماز کی طرف دعوت دی گئی حتیٰ کہ بالآخر اسے با ند ھ دیا گیا اور تلوار کھینچ لی گئی اور اسے کہا گیا کہ نماز پڑ ھتے ہو تو بولو ورنہ ابھی تمہارا قصہ تمام کر دیا جا ئے گا اور وہ کہے کہ قتل کر ناہے تو کر لے میں نماز نہیں پڑ ھوں گا،ایسے شخص کے کفر میں تو شک کر نے والے پر بھی تعجب ہے(الصلوۃ لابن القیم)۔
 
تارکِ نماز کے بارے میں جو تفصیلات اور پھر محاکمہ ذکر کیا ہے ، اس سب کا خلا صہ یہ ہو اکہ دلائل کی روسے تارکِ نماز کے کفر والا قول صحیح ترہے البتہ یہ کفر کفرِ بواح نہیں کہ ایسے شخص کے ساتھ تمام غیر مسلموں کا ساسلوک روار کھا جائے بلکہ یہ کفر اس سے کم درجے کاکفر ہے جو کہ بخشش وشفاعت میں مانع نہیں اور ایسا شخص ہمیشہ جہنمی بھی نہیں ہو گا ۔ اپنے گنا ہوں کی سز ابھگت کر یا پھر اللہ سے معانی پا کر وہ جنت میں چلا جا ئے گا لیکن یہاں یہ بات تارکینِ نماز کو کا ن کھول کر سن لینی چا ہئے کہ اگر علیٰ وجہ التنز ل یہ بھی مان لیا جا ئے کہ تارکِ نماز فاسق ہے تویہ بھی کیا کم ہے؟
 
 سزائے قتل یا قید
 
آخرت کو تو جو ہو گا سو ہو گا ،ترکِ نماز کے اس گناہ کی تود نیا میں بھی سخت سزاہے چنانچہ اگر کو ئی اسلامی حکومت نظامِ صلوٰۃ کو پوری طرح نافذکر دے تواس شکل میں تارکِ نماز کی سزاکیا ہے ؟ اس سلسلہ میں حضرت سفیان ثوری ، ابو عمر ، امام اوزاعی ، عبد اللہ بن مبارک ، حماد بن زید ، وکیع بن جراح امام مالک بن انس ، امام محمد بن داؤد ، امام شافعی ،امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق اور ان کے اصحاب کا فتویٰ یہ ہے کہ تارکِ نماز کو قتل کیا جا ئے گا جبکہ اس با رے میں بعض دوسرے اہلِ علم کا کہنا ہے کہ اسے قتل تو نہ کیا جا ئے البتہ اسے قید میں ڈال دیا جا ئے جہاں وہ توبہ کر لے تو اسے نکال دیا جائے یا پھر وہ قید میں جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے یعنی تادمِ توبہ یا تا دمِ موت اسے قید میں رکھا جائے ۔ اس دوسرے مسلک کے قائلین امام ابن شہاب زہری ،سعید بن مسیب ، عمر بن عبد العزیز ، داؤد بن علی ظاہری ، اما م ابو حنیفہ اور مزنی ہیں ۔
 

شیئر: