Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈالر میں ادائیگیاں اصل قیمت سے کئی روپے مہنگی کیوں پڑتی ہیں؟

آن لائن کاروبار کرنے والوں کو ڈالر کے کم ریٹ پر ادائیگی ہوتی ہے۔ فوٹو ان اسپلیش
پاکستان میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر بتدریج تنزلی کا شکار ہے، ایسے میں انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں روپے کی بتائی گئی قیمت کے برعکس آن لائن ادائیگیوں کے وقت مذکورہ قیمت سے 10 روپے فی ڈالر تک زیادہ رقم کی کٹوتی کی جاتی ہے۔ 
یہی وجہ ہے کہ آن لائن سروس پرووائیڈرز بیرون ممالک اکاؤنٹ بنا کر کمپنی کا سرمایہ وہاں رکھتے ہیں۔
فاریکس ڈیلرز کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق جمعرات کو انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 10 پیسے بڑھ کر 170.60 ہو گئی ہے، تاہم ڈیجیٹل سروسز فراہم کرنے والے فراز احمد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’جب انہوں نے فری لانسر ویب سائٹ کے ذریعے ڈالر میں ادائیگی کرنا چاہی تو وہاں ڈالر کا ریٹ 175 روپے درج تھا۔‘
 اس پر پھر ٹیکس، بیک چارجز اور انٹرنیشنل ٹرانزیکشن چارجز لگا کر ایک ڈالر کی قیمت 180 روپے کچھ پیسے پڑی، جو میڈیا پر بتائے گئے ریٹ سے 10 روپے فی ڈالر زیادہ تھی۔
قیمت کا یہ فرق ڈالر کی ادائیگی تک محدود نہیں بلکہ اگر کسی کے پاس ڈالر موجود ہیں اور وہ انہیں پاکستانی روپوں میں تبدیل کروانا چاہتا ہے تو بینک کی جانب سے اسے انٹربینک ریٹ سے کم ریٹ پر ڈالر تبدیل کر کے دیے جاتے ہیں۔
حسین جلال ایک کال سینٹر سے منسلک ہیں، ان کا کہنا ہے کہ کلائنٹس سے ہر ماہ پیمنٹس ڈالر میں موصول ہوتی ہیں جنہیں بینکوں کے ذریعے پاکستانی روپوں میں وصول کیا جاتا ہے۔ حسین نے بتایا کہ ’بینک ہمیشہ انٹربینک ریٹ سے ایک سے دو روپے کم قیمت میں ڈالر تبدیل کرتے ہیں۔’
’اس وقت ہر جگہ شور ہے کہ ڈالر کی انٹربینک قیمت 170 روپے پہنچ گئی ہے لیکن آج ہی رواں ماہ کی پیمینٹ موصول ہوئی ہیں جس میں بینک نے 167.5 روپے کے حساب سے ڈالر کو پاکستانی روپوں میں منتقل کیا ہے۔‘

آن لائن ادائیگیوں کے وقت 10 روپے فی ڈالر تک کی کٹوتی ہوتی ہے (فوٹو: ان سپلیش)

اس حوالے سے جب بینک کے حکام سے بات کرنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے آن ریکارڈ تفصیل دینے سے گریز کیا البتہ بنیادی وجہ یہی بتائی کہ بینک کی جانب سے سروس چارجز اور عائد ٹیکسوں کی کٹوتی کر کے ڈالر کی ٹرانزیکشن کی جاتی ہے۔ یہ تمام رقم صارف کے ذمہ واجب الادا ہوتی ہے۔
نجی بینک میں کام کرنے والے ایک عہدیدار نے بتایا کہ بینک اس دن کے ریٹ کے بجائے ایک اوسط ریٹ پر ٹرانزیکشن کرتا ہے جس میں رِسک اسیسمنٹ شامل ہوتی ہے تاکہ روپے کی قدر میں اچانک کمی یا زیادتی سے بینک کو نقصان نہ ہو۔
منی ایکسچینجرز کی جانب سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق اس وقت اوپن مارکیٹ میں ڈالر 173 روپے سے زائد قیمت پر دستیاب ہے۔ منی ایکسچینجرز کا کہنا ہے کہ ’یہ کیش کی قیمت ہے، اگر اس میں کریڈٹ پیمنٹ شامل ہوجائے تو یہ قیمت مزید بڑھ جاتی ہے۔‘
منی چینجر باسط محمود نے بتایا کہ آن لائن ادائیگیوں میں پیمنٹ فوراً موصول نہیں ہوتی، بلکہ بینک کے مراحل سے گزر کر بعد میں وصول ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ جتنے بھی ادارے کریڈٹ پر پیمنٹ وصول کرتے ہیں وہ مارکیٹ ریٹ سے زیادہ چارج کرتے ہیں۔ 
فراز احمد نے اس حوالے سے واضح کیا کہ جتنی بھی ویب سائٹ جہاں پیمنٹ ہوتی ہے، ان میں بیشتر کی پیمنٹ اے پی آئی گوگل سے منسلک ہوتی ہے، اور وہاں سے ڈالر کا ریٹ دکھا رہی ہوتی ہے نہ کہ حکومت یا فاریکس ڈیلرز کی جانب سے فراہم کردہ۔ 

بینک کی جانب سے کی گئی کٹوتیاں بھی صارف کو ہی ادا کرنا پڑتی ہیں (فوٹو: ان سپلیش)

راج کمار ختری نے حال ہی میں آن لائن سٹارٹ اپ شروع کیا ہے ایسے میں کچھ سہولیات وہ ایسی حاصل کرتے ہیں جس کی پیمنٹ انہیں ڈالر میں کرنا ہوتی ہے، انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ہمیشہ پیمنٹ کے وقت ڈالر کا ریٹ انہیں بتائے گئے ریٹ سے زیادہ ہی ملتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ہارڈ کیش اور کریڈٹ پیمنٹ کا فرق ہے، کہ کریڈٹ پیمنٹ ہمیشہ مہنگی پڑتی ہے۔
جواد احمد غیر ملکی کلائنٹس کے لیے فری لانس کام کرتے ہیں اور انہیں پیمنٹ منی ٹرانسفر ایپلیکیشن کے ذریعے موصول ہوتی ہے، انہوں نے بتایا کہ جہاں ایک طرف انٹربینک میں ڈالر کا ریٹ 170 روپے ہے وہاں انہوں نے کل ہی اپنی پیمنٹ 166 روپے کے حساب سے وصول کی۔
’جب مجھے کچھ خریدنا ہوتا ہے تو مذکورہ قیمت سے کم از کم 5 روپے زیادہ دینے پڑتے ہیں، اور جب مجھے پیمنٹ ملتی ہے تو فی ڈالر 4 سے 5 روپے کم۔ دیکھا جائے تو میں ڈالر میں کما کر بھی اگر ڈالر میں کچھ خریدنا چاہوں تو فی ڈالر 10 روپے مہنگی پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنی کمپنیوں کے لیے بیرون ممالک اکاؤنٹ کھول کر سرمایا وہاں رکھتے ہیں اور پاکستان نہیں لاتے۔‘

شیئر: