Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب یونیورسٹی: نوبیل انعام والوں کی قدیم مادر علمی

لاہور کے مال روڈ کے آغاز پر اینگلو اینڈین طرز تعمیر کی کئی عمارتیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے پرشکوہ انداز میں آج بھی اس سڑک کی رومانویت کو دوبالا کر رہی ہیں۔
چاہے وہ ٹاؤن ہال ہو یا عجائب گھر، یا پھر ٹولنٹن مارکیٹ اور جی پی او۔ جبکہ بائیں طرف گورنمنٹ کالج یونیورسٹی ہو یا پھر برصغیر کی قدیم تین یونیورسٹیوں میں سے ایک پنجاب یونیورسٹی کے سرخ پتھر سے بنے گلابی گنبد۔
ان تمام عمارتوں میں طرز تعمیر آپ کو ایک جیسا محسوس ہوگا۔ ہو بھی کیوں نہ، کیونکہ ان سب عمارتوں کو بھائی رام سنگھ نے بنایا تھا جو اپنے دور کے ایک مانے ہوئے آرکیٹیکٹ تھے۔
آج بات کرتے ہیں پنجاب یونیورسٹی کی جس کو وجود میں آئے ہوئے ڈیڑھ صدی کے قریب وقت ہو چلا ہے۔ اس کی موجودہ عمارت (اولڈ کیمپس) تو بھائی رام سنگھ نے 1911 میں بنائی لیکن اس مادر علمی کا آغاز 14 اکتوبر 1882 کو ہوا تھا۔
معروف آرکیٹیکٹ اعجاز انور بتاتے ہیں کہ سترہویں صدی کے نصف کے بعد نوآبادیاتی حکومت نے خطے میں اعلٰی تعلیم کے لیے چار بڑے اداروں کا خاکہ پیش کیا۔ ان میں سے چوتھا ادارہ  پنجاب یونیورسٹی تھا جسے لاہور میں بنایا جانا تھا۔
ڈاکٹر اعجاز انور کے مطابق ’ویسے تو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، گورنمنٹ کالج لاہور، نیشنل کالج آف آرٹس اور فارمین کرسچیئن کالج موجود تھے لیکن یونیورسٹی نہیں تھی۔‘
’بس قانون پڑھانے کے لیے ایک کالج موجود تھا جس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ یونیورسٹی بنائی جائے گی جس میں ڈاکٹریٹ تک تعلیم حاصل ہو گی۔‘
براٹینکا انسائیکلو پیڈیا کے مطابق 1857 میں کلکتہ یونیورسٹی کا آغاز ہوچکا تھا۔ اور ابتدا میں پنجاب یونیورسٹی کا الحاق کلکتہ سے کر کے 1882 میں تعلیم کا آغاز کر دیا گیا تھا۔
بعد ازاں اسے مکمل یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوگیا۔ یونیورسٹی کا درجہ ملنے کے بعد مہندرہ کالج پٹیالہ پہلا کالج تھا جس کا پنجاب یونیورسٹی سے الحاق ہوا جبکہ اس کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور سمیت شمالی ہندوستان میں کئی طرح کے کالجز نے بھی پنجاب یونیورسٹی سے الحاق کرلیا۔

’ملک کے لاکھوں کی تعداد میں پروفیشنلز نے اس مادر علمی سے شناخت حاصل کی ہے‘ (فائل فوٹو: وکی میڈیا)

اس کا ایک کیمپس چندی گڑھ میں بنایا گیا۔ 1927 میں گورنمنٹ کالج لاہور کے پروفیسر آرتھر کامپٹون کو فزکس کا نوبیل انعام پنجاب یونیورسٹی سے الحاق کے بعد ملا۔
پنجاب یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر سر جیمز براڈ ووڈ لیال تھے اور اس وقت اس کا رقبہ 300 ایکٹر پر محیط تھا۔ یونیورسٹی کے موجود وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد اختر بتاتے ہیں کہ جامعہ کا آغاز اورینٹل لرننگ کی ڈگریز سے ہوا۔
’شروع میں تو اورینٹل لرننگ لیکن بعد میں ہر طرح کی فیکلٹی جامعہ پنجاب کا حصہ بن گئی۔ اب تو یہاں کوئی ایسا مضمون نہیں جو نہ پڑھایا جا تا ہو۔ اس وقت اس کے پانچ کیمپس ہیں جبکہ 19 فیکلٹیز ہیں۔ ڈیپارٹمنٹس، سینٹرز اور انسٹی ٹیوٹس کی تعداد 134 ہوچکی ہے۔‘
ہندوستان کے بٹوارے کے بعد پنجاب یونیورسٹی کے سرحد پار کیمپسز اور انسٹی ٹیوٹ الگ ہو گئے۔
ڈاکٹر اعجاز انور کہتے ہیں کہ ’آزادی کے بعد پنجاب یونیورسٹی کا چندی گڑھ کیمپس اس سے الگ ہو گیا۔ اب بھی وہاں وہ پنجاب یونیورسٹی چندی گڑھ کے نام سے جانی جاتی ہے اور یہاں یہ پنجاب یونیورسٹی لاہور ہے۔‘

سینٹر فار ورلڈ یونیورسٹی رینکنگز کے مطابق پنجاب یونیورسٹی تعلیمی معیار میں 432 ویں نمبر پر ہے۔ (فائل فوٹو: پنٹرسٹ)

بٹوارے کے بعد پنجاب یونیورسٹی کا ایک نیا سفر شروع ہوا تو حکومت وقت نے اس کو وسعت دینے کا سوچا اور اس کا ایک کیمپس شہر سے باہر بنانے کا فیصلہ کیا گیا اور 1962 میں نہر کنارے جہاں اس وقت نیو کیمپس یا قائد اعظم کیمپس ہے یہاں انسٹی ٹیوٹ آف ایڈمنسٹریٹیو سائنسز کی بنیاد رکھی گئی۔
وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز کے مطابق ’اس کے بعد یونیورسٹی کا پھیلاؤ وسیع ہو گیا یہاں تقریباً 1700 ایکڑ پر نیو کیمپس بنایا گیا جہاں بڑے پیمانے پر ہاسٹلز بنائے گئے۔ اب بھی لگ بھگ 30 ہزار طلبہ و طالبات ہاسٹلز میں رہتے ہیں جبکہ آن کیمپس 45000 سے زائد طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔‘
مال روڈ پر موجود پنجاب یونیورسٹی کی عمارت کو اولڈ کیمپس کا نام دیا گیا ہے جبکہ اقبال ٹاؤن اور فیصل ٹاؤن کے درمیان نہر کنارے بنائی گئی نئی عمارت کو نیو کیمپس کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ دونوں کیمپسز میں آنے جانے کے لیے یونیورسٹی کا اپنا بس سسٹم چلتا ہے۔
تقسیم کے بعد پنجاب یونیورسٹی نے دو نوبیل انعام یافتہ سائنس دان پیدا کیے۔ پہلا انعام ڈاکٹر گوبند کھورانا نے میڈیسن کے شعبے میں 1968 میں حاصل کیا جبکہ فزکس کا نوبیل انعام ڈاکٹر عبدالسلام کے حصے میں 1979 میں آیا۔

وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز نے بتایا کہ ’ہم یونیورسٹی کی عالمی رینکنگ کو بہتر کرنے کے لیے منصوبہ بندی کر رہے ہیں‘ (فائل فوٹو: پنجاب یونیورسٹی)

وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز احمد کہتے ہیں کہ اس یونیورسٹی نے ملک کے ہر شعبے میں گراں قدر خدمات دی ہیں۔ ’یہاں سے کون کون نہیں پڑھ کے گیا؟‘
’اس ادارے نے کئی وزرائے اعظم اس ملک کو دیے ہییں، کئی سائنس دان اور کئی انجینیئرز اور لاکھوں کی تعداد میں پروفیشنلز نے اس مادر علمی سے شناخت حاصل کی ہے۔‘
عالمی رینکنگ میں بہتری
وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’اب وہ یونیورسٹی کی عالمی رینکنگ کو بہتر کرنے کے لیے منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔‘
یاد رہے کہ سینٹر فار ورلڈ یونیورسٹی رینکنگز کے مطابق پنجاب یونیورسٹی دنیا کی بہترین 801 سے 1000 جامعات کی فہرست میں شامل ہے۔
ڈاکٹر ناز نے بتایا کہ ’ہم اب ریسرچ کے شعبے پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں تاکہ یونیورسٹی کی عالمی درجہ بندی بہتر ہو۔ اسی لیے ہم نے کئی انسٹی ٹیوٹس کے ذیلی ڈیپارٹمنٹس بڑھا دیے ہیں تاکہ ہر شعبے پر انفرادی توجہ دی جا سکے۔‘
ڈاکٹر نیاز کا کہنا تھا کہ ’اب وقت آگیا ہے کہ جامعہ پنجاب کا سوشل ڈیویلپمنٹ میں بھی رول بڑھایا جائے اور یہاں کی تحقیقات کو نہ صرف عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہو بلکہ ان تحقیقات کا سماجی سطح پر پاکستان کے سوشل فیبرک میں ہمارا حصہ پہلے سے زیادہ ہو۔‘

شیئر: