Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور کے پُلوں کے عجیب و غریب نام کیسے پڑے؟

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں آج بھی اٹھارویں اور انیسویں صدی کے پل شہر کے مختلف حصوں میں سفری رابطے کا اہم ذریعہ ہیں، لیکن اس سے کہیں زیادہ دلچسپ بات ان پلوں کو دیے جانے والے نام ہیں۔
پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں کئی ایسے پل ہیں جن کے عجیب و غریب نام ہیں۔ جن میں ’ اک موریہ ‘ اور ’دو موریہ پل‘، ’باجا لائن پل‘،  سرحدی علاقے میں رنجیت سنگھ کی محبت کے نام سے مشہور ’مائی موراں کنجری‘ کا پل اور دیگر کئی پل شامل ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ لاہور کو پنجاب کے شمالی علاقوں سے ملانے والی قدیم شاہراہ جی ٹی روڈ پر دریائے راوی کے اوپر بنا پل بھی اب ان قدیم ترین پلوں میں شامل ہے، جب کہ سرحدی علاقے میں بی آ ر بی نہر پر لکڑی اور سٹیل سے بنا ہوا پل بھی انگریز دور کی یاد دلاتا ہے، مگربے ہنگم ٹریفک، رش اور خستہ حالی کے باعث اس کا استعمال اب کافی حد تک کم ہو گیا ہے۔
پاکستان بننے سے قبل انگریزوں کی جانب سے ریلوے لائنوں کے اوپر گزر گاہوں پر جو پل بنے ان میں سے ایک ’باجا لائن پل‘ بھی ہے جو گڑھی شاہو کے علاقے کو شمالی لاہور سے ملانے کا کام کرتا ہے۔
تاریخ دان فقیر سیف الدین نے اردو نیوز کو بتایا کہ 1876 میں پاکستان میں ریلوے کا نظام آیا اور اس وقت  لاہور ریلوے اسٹیشن کو بناتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا گیا کہ لاہور کو پنڈی اور طورخم سے ملانے والے ٹریک کے نیچے سے گزر گاہیں بنائی گئیں، جبکہ لاہور ریلوے سٹیشن کے بالکل قریب پنجاب کے دیگر علاقوں سے آنے والے افراد کے لیے، شمالی لاہور کو اندرون لاہور سے ملانے اور ٹرانسپورٹ کے لیے مناسب گزر گاہیں تعمیر کی گئیں تو سب سے پہلے ریلوے سٹیشن کے ساتھ ’اک موریہ پل‘ اور ’دو موریہ پل‘ بنائے گئے جو صدی سے زیادہ پرانے ہونے کے باوجود آج بھی لوگوں کے لیے گزر گاہ کا کام کر رہے ہیں۔
تاریخ دانوں کے مطابق ریلوے سٹیشن کے قریب  سے گزرتی ریلوے لائن مصری شاہ، گھوڑے شاہ کے علاقوں کو پرانے لاہور یا والڈ سٹی سے ملانے والے دو پلوں میں  سے ایک گزرگاہ والے کو ’اک موریہ‘ (یعنی ایک سوراخ) جبکہ دو گزرگاہوں والے پلوں کو ’دو موریہ‘ (یعنی دو سوراخ) والے پل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ تاہم پنجابی بولنے والوں نے ان کے ناموں کو مزید دلچسپ بنا دیا۔

شہر میں’ اک موریہ ‘، ’دو موریہ‘، ’باجا لائن‘، رنجیت سنگھ کی محبت کے نام سے مشہور ’مائی موراں کنجری‘ کا پل اور دیگر کئی پل زیر استعمال ہیں (فوٹو: لاہور ورثہ)

سٹیل کے پلرز سے بنے ان پلوں کو پرانی حالت کے باوجود قابل استعمال رکھنے کے لیے مقامی حکومت ان کی گاہے بگاہے مرمت کرواتی رہتی ہے تاکہ ماضی کی یہ گزر گاہیں قائم رہ سکیں۔
تاریخ دان ڈاکٹر احتشام عزیز کہتے ہیں کہ گزر گاہوں کے لیے ہر دور میں مختلف قسم کے طریقے رائج رہے ہیں۔ دریائے راوی چونکہ لاہور کو دیگر شہروں سے ملاتا تھا، اس لیے ماضی میں اس کے اوپر سے گزرنے والوں کے لیے ایک گزرگاہ بنائی گئی جو اب ’بڈھا‘ یا پرانا راوی پل کے طور پر مشہور ہے جبکہ بڈھا راوی مغلیہ دور میں شاہی قلعہ کے ساتھ بہتے دریائے راوی کو کہا جاتا تھا۔
مغل دور میں دریائے راوی کو عبور کرنے کے لیے کشتیوں کی لکڑی سے گزر گاہ بنائی گئی، جو بعد میں انگریز دور میں ریلوے ٹرین کراسنگ اور عام گزر گاہ کے لیے جہانگیر کے مقبرے کے قریب ہے اور اس پل  میں سٹیل کا استعمال ہوا ہے جبکہ اب بھی یہ پل ریل گاڑیوں کے گزرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے تاہم بڑی اور ہیوی گاڑیوں کے لیے یہ پل زیر استعمال نہیں۔

تاریخ دانوں کے مطابق انگریز اور سکھ دور میں لکڑی کے ساتھ سٹیل کا استعمال ماضی کی یاد کو تازہ کرتا ہے (فوٹو: پاکستان ریلوے)

تاریخ دانوں کے مطابق انگریز اور سکھ دور میں لکڑی کے ساتھ سٹیل کا استعمال ماضی کی یاد کو تازہ کرتا ہے۔ سر گنگارام جو انجینئر ہونے کے ساتھ ساتھ جدید لاہور کے بانی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے لاہور میں نہری نظام لانے کے لیے نہروں اور دریاوں پر پلوں کی تعمیر کا سلسلہ شروع کیا۔
1849 میں بننے والا گڑھی شاہو کے علاقے میں بننے والا پل ’باجا لائن‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جدید لاہور میں بننے والے پلوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، مگر پاکستان بننے کے بعد جو پل مقبول ہوئے، ان میں صوفی بزرگ حضرت میاں میر کے نام سے ’میاں میر پل‘ اور 46 سال قبل اس وقت پیپلز پارٹی کے رہنما حیات شیر پاؤ کے قتل واقعے کی مناسبت سے  بننے والا جیل روڈ اور برج کالونی کے شیر پاؤ پل شامل ہیں۔ دریائے راوی پر بننے والا سگیاں پل اور شاہدرہ سے جی ٹی روڈ کو لاہور سے ملانے والا راوی پل بھی پاکستان کے قیام کے بعد بننے والے ابتدائی پلوں میں شمار ہوتے ہیں۔

شیئر: